امریکہ پاکستان کی خودمختاری کا پاس رکھنا ہوگا۔ پاکستان خطے میں واحد ملک ہے جو چار ممالک، بھارت، چین، افغانستان اور ایران کے درمیان میں موجود ہے ان چار ممالک کی زمینی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کو اپنی سلامتی اور دفاعی پالیسی خارجہ پالیسیان چار ممالک کے موڈ اور ذہین کو مدنظر رکھ بنانا پڑتی ہے۔ ان چار ممالک میں بھارت پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بھارت کی تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی ترقی و سالمیت اور خوشحالی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ اور عالمی دنیا گواہ ہے بھارت براستہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا پاکستان کے پاس اس کے ثبوت بھی ہیں۔ امریکہ کو پاکستان جس نے نائن الیون سے قبل اور اسکے بعد جانی و مالی قربانیاں دیں،
اس طرح کی پابندیاں امریکہ کو خود سوچنا ہوگا حالیہ پابندیوں سے دنیا کو کیا پیغام دیا ہے؟ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں دنیا کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کا بغور جائزہ لے کر سیاست کریں ملکی سلامتی کے پیش نظر اپنی فوج اور جملہ اداروں کیخلاف سازشوں سے باز رہیں۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو چوکنا رہنا ہوگا جو کچھ اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے اس کا بغور جائزہ لیں۔ پاک فوج اور جملہ اداروں نے بڑی قربانیاں دے کر ملک و قوم کو دہشت گردی سے آزاد کرایا بحیثیت قوم ہمیں وطن عزیز کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ وطن عزیز کی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ملک کو داخلی اور خارجی دبائو سے بچا کر رکھنے والی پاک فوج اور اس کے جملہ ادارے ہی ہیں۔
سیاسی گلیاروں میں جو اس وقت ماحول ہے کسی بھی زاویئے سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاک فوج اور اسکے جملہ ادارے دہشت گردی کا تن تنہا سامنا کر رہے ہیں امریکہ کو یہ نظر کیوں نہیں آتا پاک فوج اور جملہ ادارے داخلی سلامتی اور امن و امان کے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں امریکہ پاکستان کی داخلی خودمختاری کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ملک کے وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کئی ہمسایہ ممالک کے دورے کر چکے ہیں وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو اپنے موقف سے آگاہ کر رہے ہیں۔ امید ہے وہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان پر اس طرح کی پابندیوں سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے.