شانِ پاکستان
تحریر: عامر عباس ناصر اعوان
وطن…
ایک لفظ نہیں، ایک دھڑکن ہے،ایک سایہ ہے جو تپتے سورج میں چھاؤں بن کر برستا ہے،ایک آنگن ہے جس میں نسلیں پلتی ہیں،ایک مٹی ہے جسے بوسہ دینے سے ماتھے کا نصیب جاگتا ہے۔
پاکستان…
کوئی نقشہ نہیں، کوئی نشان نہیں،بلکہ وہ خواب ہے جو ایک شاعر کی پلکوں سے ٹپکا،ایک قائد کے حوصلے سے ابھرا،اور ایک قوم کے لہو سے رنگین ہوا۔
یہ وطن ہمیں صدیوں کے انتظار، لاکھوں کی قربانی اور کلمۂ توحید کی گونج کے ساتھ ملا۔یہ وہ تحفہ ہے جو تاریخ نے ہمیں کانٹوں سے چن کر دیا۔
مگر سوال یہ ہے کہ…”ہم نے اس تحفے کی حفاظت کیسے کی؟”
وہ دن، وہ منظر، وہ قربانی
چودہ اگست 1947 کا سورج فقط طلوع نہ ہوا،وہ اپنے ساتھ قافلوں کی آہیں، بچوں کی چیخیں اور ماؤں کی سسکیاں لے کر طلوع ہوا۔
راستوں پر خون تھا، مگر زبانوں پر "پاکستان زندہ باد” کا نعرہ تھا۔بکھری لاشوں کے درمیان جھنڈا بلند تھا۔ریلوے اسٹیشنوں پر آنکھوں کے سامنے خاندان مٹ رہے تھے،مگر دل میں امید کی شمعیں روشن تھیں۔
پاکستان ایک انقلابی دعا کا قبول ہونا تھا۔یہ مٹی محض سرحدوں میں قید ایک ملک نہیں،یہ ہماری شناخت ہے، ہماری زبان، ہماری ثقافت، ہمارا وقار۔
شانِ پاکستان کیا ہے؟
شانِ پاکستان وہ مینار نہیں جو صرف تصویر میں ہے،بلکہ وہ اذان ہے جو مسجد کے مینار سے ہر صبح ہمیں جگاتی ہے۔وہ مزار نہیں جو ہری جالیوں میں چھپا ہے،بلکہ وہ بازار ہے جہاں ایک باحجاب بیٹی رزقِ حلال کے لیے کام کرتی ہے۔
شانِ پاکستان وہ سپاہی ہےجو برف کی چادر میں لپٹا، پہرہ دے رہا ہے۔شانِ پاکستان وہ اُستاد ہےجو چاک کے گرد اپنی زندگی کا دائرہ بنا کر نسلیں بناتا ہے۔شانِ پاکستان وہ کسان ہے،جو سورج کے ساتھ بیدار ہوتا ہے اور مٹی کو سونا بنا دیتا ہے۔
مگر آج…!ہم نے وطن کی محبت کو صرف نعروں تک محدود کر دیا۔ہم نے پرچم کو دیوار پر چڑھا دیا، مگر دل سے اتار دیا۔قانون کا مزاق، انصاف کی بولی،اخلاق کی موت، سچ کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔جس ریاست کو "مدینہ کی جھلک” بننا تھا،وہاں نعرے تو بہت ہیں، لیکن کردار مفقود ہے۔
مزاحمت: شان کا اثاثہ
تاریخ شاہد ہے کہ قومیں جنگوں سے نہیں، ضمیر کے بیدار ہونے سے بنتی ہیں۔پاکستان کی اصل شان وہ ہےجو اپنے اندر سچ، غیرت، اور قربانی کو زندہ رکھے۔وہ شان ضمیر کے بیدار لمحے میں ہے،جب ایک طالبعلم کمرہ امتحان میں نقل سے انکار کرتا ہے۔وہ مزاحمت ہے،جب ایک دیہاڑی دار مزدور حرام کی روٹی ٹھکرا دیتا ہے۔وہ روشنی ہے،جب ایک شاعر ظلم کے خلاف نظم لکھتا ہے، چاہے پابند سلاسل ہو جائے۔وہ غیرت ہے،جب ایک بچی گاؤں میں اسکول نہ ہونے پر چھت پر بیٹھ کر پڑھتی ہے،اور کہتی ہےکہ”ایک دن میں استاد بنوں گی، اس پاکستان کے لیے!”
امید کا چراغ
اگرچہ اندھیرے بہت ہیں،لیکن روشنی مر نہیں گئی۔آج بھی کوئی استاد بچوں کے ہاتھوں میں قلم دے رہا ہے۔آج بھی کوئی ماں بچے کو سچ بولنا سکھا رہی ہے۔آج بھی کوئی نعت خواں وطن سے محبت کو ترنم میں سجا رہا ہے۔اور آج بھی کوئی نوجوان فیس بک پر نہیں، میدانِ عمل میں پاکستان کے لیے جیت رہا ہے۔
اب کیا کرنا ہے؟
اب وقت ہے کہ ہم صرف تقریریں نہ کریں، کردار دکھائیں۔وطن سے محبت صرف نعرہ نہ ہو، وعدہ ہو۔جشنِ آزادی صرف رنگوں کی بہار نہ ہو، عمل کا چمن ہو۔ہر فرد ایک چراغ بنے، ہر دل ایک منار بنے۔اور ہر زبان، "پاکستان زندہ باد” سے پہلے "میں زندہ باد کیسے بنوں؟” کا جواب دے۔
حلفِ وفاداری
آئیے، آج چودہ اگست کے دن،نئے کپڑے پہننے سے پہلے نیا عہد کریں۔ہم سچ بولیں گے۔ہم ایماندار رہیں گے۔ہم وطن کے وفادار ہوں گے۔ہم اپنے قلم، اپنی سوچ، اپنے قدم اور اپنے خواب پاکستان کے نام کریں گے۔کیونکہ…”شانِ پاکستان وہ نہیں جو دکھائی دے،بلکہ وہ ہے جو جِھلکے، جو جلے، جو روشنی بنے!”
پاکستان زندہ باد…….شانِ پاکستان پائندہ باد!