امجد بخاری کی "شادی شدہ” افراد کی صف میں شمولیت

amjad bokhari

دعوت ولیمہ کا کارڈ موصول ہوا،کارڈ پر والدین کا نام لکھا تھا اور والد و والدہ کے نام کے سامنے مرحوم لکھا تھا، یعنی مرحوم والدین کی طرف سے بیٹے کے ولیمہ میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، ولیمہ بھی کہاں…وہ بھی "آغوش” میں، یتیم خانے میں،ولیمے کا کارڈ دیکھ کر خوشی ہوتی لیکن یہاں منظر کچھ اور تھا…آںکھوں میں آنسو …سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ولیمے کا کارڈ….مرحوم والدین کی طرف سے دعوت…آج ہمارے انتہائی پیارے دوست سید امجد حسین بخاری کے والدین اگر حیات ہوتے تو کتنے خوش ہوتے…بخاری صاحب نے زندگی کی تین دہائیاں گزار دیں، چوتھی دہائی میں آ کر شادی کے بندھن میں بندھ گئے ..دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی نئی شروعات کو کامیابی سے ہمکنار کرے، آمین

سید امجد حسین بخاری کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، صحافی بننے کا جنون انہیں لاہور لے آیا، میدان صحافت میں وہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں، زیادتیوں کا مقابلہ کرنے اور حق کا علم بلند کرنے کے لئے آئے،غائبانہ تعارف تو تھا ہی لیکن گزشتہ برس لاہور سے سوات سفر ایک ساتھ کیا اور تین دن ہمسفر رہے، وہ تین دن کا سفر ایسی "یاری” میں بدلا کہ اب شاید کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب چائے،کھانے پر ان سے ملاقات نہ ہو، بیٹھ جائیں تو گھنٹوں بیٹھ کو گپ شپ کرتے ہیں،اور کئی بار تو چائے کے بھی تین چار دور چل جاتے ہیں، میری طرح میٹھا کم اور پتی تیز چائے پینے والے چائے کے”نشئی” بھی ہیں،ہماری ملاقات اکثر ایسے ہی ہوتی..سر چائے…اور اگلے چند منٹوں بعد ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے.

سید امجد حسین بخاری سے جب بھی ملاقات ہوئی، مسکراتے چہرے کے ساتھ…انتہائی نفیس انسان، ہمدرد،اور انتہائی شریف بھی،باصلاحیت بھی،کبھی انکو”غصے” میں نہیں دیکھا،پروقار شخصیت،عمدہ بات چیت، مشکلات کو بھی خاموشی سے سہنے والے، دوسروں کی ہمیشہ مدد میں سب سے آگے رہنا انکا شیوہ ہے،وہ جس سے بھی ملتے ہیں پہلی ملاقات میں ہی "دوستی” کا نہ ٹوٹنے والے رشتہ قائم ہو جاتا،میں حیران ہوں کہ ہاسٹل میں جب بھی انکے پاس گیا ہر بار اک نیا چہرہ، نیا دوست ملا اور یوں اپنی دوستیوں کا سلسلہ بھی سید امجد حسین بخاری کے توسط سے ہی وسیع تر ہوتا چلا گیا،وہ اپنے دوستوں کو دوست سے زیادہ بھائیوں جیسی اہمیت دیتے ہیں،انکے دل میں دوستوں کے لئے "غیر معمولی تڑپ” نظر آتی ہے،اپنی نوکری گئی لیکن پریشان نہ ہوئے البتہ دوسرے بے روزگار دوستوں کے لئے ہروقت پریشان نظر آئے،زندگی میں دوست کی اہمیت کا اندازہ مشکل میں ہی ہوتا ہے، دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل میں جان چھڑانے کی بجائے اپنوں سے بھی آگے ہو کر مضبوط سہارا بن کر ساتھ دے، سید امجد حسین بخاری ایسے ہی دوست ہیں جن کو خود سے زیادہ دوستوں کی فکر ہی رہتی ہے، اسی فکر میں انہوں نے تین دہائیاں‌گزار دیں اور اب کہیں چوتھی دہائی میں بھی ہماری بھابھی محترمہ کو بھی "بخاری صاحب ” کا دیدار نصیب ہو گیا جس کا بڑی شدت سے سب کو انتظار تھا.

ہمارے دوست سید امجد حسین بخاری کی شادی کیسے طے پائی؟ دوستوں کی دعائیں ہی رنگ لائیں،خصوصی طو رپر برہان کی جو ابھی بھی شادی کے انتہائی شدت سے شادی کا لڈو کھانے کے لئے بیتاب ہیں،نکاح کی تقریب لاہور میں ہوئی تو ولیمہ آغوش شیخوپورہ میں رکھا گیا، آغوش جماعت اسلامی کے رفاہی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کا ادارہ ہے جس میں یتیم بچوں کی کفالت کی جاتی ہے، الخدمت فاؤنڈیشن کے ملک کے کئی شہروں میں "آغوش” موجود ہیں،جہاں یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے،خوراک، صحت کی مفت سہولیات بھی انکے لئے میسر ہیں، مخیر حضرات کے تعاون سے الخدمت فاؤنڈیشن یہ پروگرام چلا رہی ہے، ملک بھر میں قائم الخدمت کے آغوش میں ہزاروں یتیم بچے مقیم ہیں، یتیم بچوں کی کفالت بلا شبہہ نیکی کا کام ہے اور اس خدمت کا بیڑہ الخدمت نے اپنے سر اٹھایا ہوا ہے، دعوت ولیمہ میں‌شرکت کے لئے لاہور سے دوستوں مخدوم اطہر صاحب، نوید شیخ، ندیم انجم کے ہمراہ نکلے اور شیخوپورہ میں قائم آغوش پہنچ گئے، آغوش شیخوپورہ کا رقبہ سترہ ایکڑ پر مشتمل ہےیہ جگہ شیخ افضل نے یتیم بچوں کے لئے وقف کی تھی،آغوش شیخوپورہ میں یتیم بچوں کے لئے رہائش کے ساتھ ساتھ تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا ہے، سکول بھی آغوش میں ہی موجود ہے، جہاں دینی و دنیوی تعلیم دی جاتی ہے،آغوش مرکز میں مسجد بھی بنائی گئی ہے جہاں باجماعت نماز کی ادائیگی ہوتی ہے، بچوں کی جسمانی تربیت کے لئے پلے گراؤنڈ بھی بنایا گیا ہے جہاں انہیں کھیل کی سہولیات بھی میسر ہیں،الخدمت فاؤنڈیشن سے ملنے والی معلومات کے مطابق آغوش ادارے میں پانچ سال سے لے کر چودہ سال تک کے بچے رہائش پزیر ہیں، صبح بچے نماز کے وقت اٹھتے ہیں، باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد ناشتا اور اسکول کی تیاری کا مرحلہ ہوتا ہے۔ بعد ازاں بچے اسکول جاتے ہیں، ہر بچے کو دوسرے روز کپڑے تبدیل کرائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہر بچے کو تولیہ، صابن، ٹوتھ پیسٹ، کنگھی، تیل اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء فراہم کی جاتی ہیں،اسکول کے بعد بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ دوپہر میں کچھ وقت آرام کے بعد بچے شام کی چائے پیتے اور کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں جس کے بعد اساتذہ انھیں ہوم ورک کراتے ہیں،دن بھر کے اوقات میں پانچ باجماعت نمازیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں درس قرآن اور درس حدیث بھی شامل ہوتے ہیں۔ رات کھانے کے بعد بچوں کو پینے کے لیے دودھ دیا جاتا ہے،بچوں کی حفظان صحت کے لیے ایک ڈاکٹر ہمہ وقت ادارہ میں موجود رہتا ہے جو بچوں کا باقاعدگی کے ساتھ معائنہ کرتا ہے.کھانے کے لئے ابھی ہفتہ وار مینو بنایا گیا ہے جس میں بچوں کو ناشتے و کھانے میں گوشت، قیمہ، پلاؤ سمیت مختلف ڈشز دی جاتی ہیں.

ولیمہ کی تقریب میں مہمانوں کی آمد جاری تھی، دولہا سید امجد حسین بخاری دلہن کے ہمراہ مہمانوں سے قبل ہی مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے، دعوت ولیمہ میں ترجمان جماعت اسلامی قیصر شریف، شمس الدین امجد، فرید رزاقی، کاشف بھٹی، خالد شہزاد فاروقی، سید بدر سعید، نورالہدیٰ، احمدبن ناصر، برہان ،شہزاد روشن گیلانی و دیگر بھی شریک ہوئے، دعوت ولیمہ میں خاص مہمان آغوش کے یتیم بچے تھے، ہال میں یتیم بچوں کو دیگر مہمانوں کے ہمراہ بٹھایا گیا، دولہا سید امجد حسین بخاری کالے رنگ کے پینٹ کورٹ میں ملبوس،چہرے پر مسکراہٹ سجائے مہمانوں سے مل رہے تھے وہیں کھانا شروع ہوا تو دولہا سید امجد حسین بخاری اٹھے اور بچوں کے میز پر جا کر دلہن کے ہمراہ انکو کھانا ڈال کر دینے لگے، چکن قورمہ، بریانی کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کی گئی، اسی دوران یتیم بچوں میں دولہا اور دلہن نے گفٹ بھی تقسیم کئے.

عموما شادی کی تقریبات میں فضول خرچی، بے جا اخراجات اور خواہ مخواہ کی رسومات دیکھنے میں‌ملتیں لیکن یہاں ہمارے دوست کی شادی کی تقریب انتہائی سادگی سے ہوئی، آغوش میں دعوت ولیمہ دے کر سید امجد حسین بخاری نے ایک عمدہ مثال قائم کر دی،تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد حسین رضوی کی شادی ہوئی تھی تو انہوں نے بھی اپنا ولیمہ یتیم خانے کے بچوں کے ہمراہ کیا تھا، سید امجد حسین بخاری نے بھی اپنا دعوت ولیمہ آغوش میں کر کے نہ صر ف ولیمے کے شرکا بلکہ سب کو پیغام دیا کہ اپنی خوشیوں میں انکو بھی شریک کرنا چاہئے جن کے والدین اس دنیا میں نہیں، سید امجد حسین بخاری کے والدین کی بھی رب تعالیٰ مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین.

امجد بخاری صاحب تو اب شادی شدہ افراد کی صف میں شامل ہو گئے،اب برہان کی باری ہے، دعا ہے جلد وہ بھی اپنے مشن میں کامیاب ہوں اور جلد انہیں بھی "گھر” والی مل جائے، آمین.

شادی کے بعد امجد بخاری نے دعوت ولیمہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 28اپریل کو میری اور سیدہ نجمہ گیلانی کی جانب سے دعوت ولیمہ کی سادہ مگر پروقار تقریب سجائی گئی، ہم دونوں نے اس تقریب میں کسی وی وی آئی پی شخصیت کو نہیں بلایا بلکہ ہمارے مہمان باہمت بچے تھے۔ ولیمہ کی تقریب کسی پرتعیش ہوٹل یا شادی ہال میں سجانے کی بجائے الخدمت کے آغوش ہال میں منعقد کی گئی۔ بیگم کی خواہش پر ہم دونوں نے بچوں کا استقبال خود کیا، ویٹر بن کر انہیں کھانا سرو کیا۔ یقین جانیں بچوں کی جانب سے ملنے والی دعائیں اور نیک خواہشات ہمیں ولی کامل کی مناجات سے زیادہ سکون دے رہی تھیں۔ انکی جانب سے ہمیں قرآن کا تحفہ اور پھول لاکھوں روپے کی سلامیوں سے زیادہ قیمتی لگے۔ اس تقریب کے دو ہی مقاصد تھے، پہلا مقصد باہمت بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا جبکہ دوسرا مقصد ان 2کروڑ سے زائد نوجوانوں کی ہمت بڑھانا جوکہ مہنگائی کے طوفان میں شادیاں کرنے سے قاصر ہیں۔ اس تقریب کے انعقاد سے اگر کوئی ایک نوجوان جوڑا بھی فصول رسومات کیخلاف کھڑا ہو جاتا ہے تو یقینا یہ میری اور نجمہ کی کامیابی ہے۔

Comments are closed.