عمران خان کو کون سمجھائے اُن کو بین الاقوامی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے جن راستوں کا انہوں نے انتخاب کیا یا کروایا جا رہاہے اور پھر اُن کی جماعت، کیا سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کو جیل سے رہائی دلوا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں، جیل سے رہائی پانے کا واحد راستہ قانونی ہے۔ رہا سوال ملک کی سیاسی تاریخ تو اُن کو بھٹو خاندان کی تاریخ اور بھٹو پر کیا گزری ان کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ بڑے بڑے سیاسی قد آور سیاسی شخصیات نے بھٹو کا ساتھ چھوڑد یا تھا۔ نیلسن منڈیالا تقریبا 27 سال پابند سلاسل رہے جب وہ رہا ہوئے تو انہوں نے پُر تشدد تحریک خیر آباد کہہ کر مذاکرات کار استہ اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سید علی گیلانی کشمیر کی آزادی کا خواب لئے ا س جہاں سے چل بسے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں مفاد پرست ٹولہ ہوتا ہے یہ وہ ٹولہ ہوتا ہے جو اپنے ہی جماعت کے قائدین کا مخبربھی ہوتا ہے ہو سکتاہے کہ پی ٹی آئی میں بعض مفاد پرست اور مخبروں کا ٹولہ موجود ہو اگر یقین نہیں تو میاں محمد نواز شریف اس کی زندہ مثال ہیں۔
بلاشبہ عمران خان ملک کے ہیرو قرار پائے، کرکٹ کا ورلڈکپ سب پاکستانیوں کو یاد ہے تاہم یہ بھی پاکستانیوں کو یاد ہے کہ آپ وزارت عظمٰی تک کیسے پہنچے، وہ ملاح بھی سب کو یاد نہیں جو آپ کی کشتی کے ملاح تھے۔ نیلسن منڈیلا جب کیپ ٹائون میں وکٹر ورسٹر جیل سے رہا ہو کر باہر نکلے تو ایک بڑے جلسے سے عاجزی سے خطاب کیا انہوں نے ایک پُرتشدد تحریک کو ختم کیا اور نئی زندگی کا آغاز کیا۔
اہل موبائل اور سوشل میڈیا کے دیوانوں نے ملکی سلامتی کو پس پست ڈال دیا ہے، اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہے کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو ۔کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو ۔ کیا کھایا کیا پہنا کہاں گھومیں۔ کس سے ملے ۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں، پھر کتنے لائق کتنے کمنٹس کتنے شیئر ، ایک محتاط انداز ے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 93 بلین سلفیاں لی جاتی ہیں۔ اب تو بھارت کی بھی سوشل میڈیا پر تشہیر ہوتی ہے ۔اب تو مرنے والوں کے ساتھ سیلفی ،جنازوں کی سیلفی ،بیماریوں کی سیلفی ،کسی کو خوراک دیتے وقت سیلفی ، زکوة دیتے وقت سیلفی ، ملکی سیاسی جماعتوں اور ان کے ہمنوائوں کو سیلفی سیاست سے باہر نکل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ ایسے راستوں کا انتخاب کرنا ہوگا جس سے ملکی ترقی اورخوشحالی کے سفر میں شامل ہو کر ضرور سیلفی بنائیں تاکہ دنیا اور قوم آپ پر فخرکریں۔