فرنٹیئر کور (ایف سی) ایک پیرا ملٹری فورس ہے جو پاک-افغان اور پاک-ایران بارڈر سے منسلک حساس علاقوں اور قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی کے فرائض ادا کر رہی ہے۔
سال2001 کے بعد خیبرپختونخواہ کے قبائلی اضلاع سمیت پورا صوبہ پڑوسی ملک افغانستان کے قریب تر ہونے کی وجہ سے دہشتگردی جیسی آگ کی لپیٹ میں آگیا جس کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ ہزاروں لوگوں نے بھی اپنی جانیں قربان کیں اور کئی لاکھ خاندان بھی متاثر ہوئے۔ ان مشکل حالات میں ایف سی اور دیگر سیکیورٹی ادارے جہاں قبائلی علاقوں کی سرحدوں کا دفاع کر رہے تھے وہیں پختون روایات سے باخبر فرنٹیئرکور نے قبائلی علاقوں میں دہشتگردی سے متاثرہ لوگوں کے سروں پر دست شفقت رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران عوام کی خدمت اور ان کے جان و مال کے تحفظ میں آئی جی ایف سی سے لیکر فرنٹیر کور کے جوان تک ہر شخص بہ نفس نفیس شامل رہا جس نے ملک کے دفاع اور عوام کے تحظ کی قسم کھائی ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سمیت پورے پاکستان کو مستقل طور پر دہشتگردی سے محفوظ رکھنے کیلئے ایف سی نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا آغاز کیا جسکو انتہائی مہارت اور خوش اسلوبی کیساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔
ایف سی کے افسران بشمول جوانوں نے ارض مقدس کی سرحدوں کا نہ صرف جوانمردی سے دفاع کیا بلکہ دہشتگردی کے ناسور سے متاثرہ عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بھی برقرار رکھا تاکہ عوام میں احساس محرومی پیدا نہ ہو جو ایک انتہائی شفیق اور بہترین عمل تھا۔ ایف سی نے عوام سے سناشائی کو بڑھایا اور ان میں گھل ملنے کے لئے ان کی ہر غمی خوشی میں شرکت کی۔ اس کی ایک بڑی مثال حالیہ ضلع مہمند کے زیارت ماربل کا حادثہ تھا جب فرنٹیر کور نے عوام کے دکھ کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے آنسؤں کو پونچھنے اورانہیں دلاسہ دینے کے لئے نہ صرف اپنا کندھا پیش کیا بلکہ ان کے خاندان کی مالی مدد بھی کی اور ساتھ ساتھ ان کے گھر کے ایک فرد کو ایف سی میں بھرتی کرنے کا اعلان بھی کیا۔
فرنٹیر کور کی عوامی خدمت کا سلسلہ یہی پر نہیں رکتا بلکہ ایف سی نے قبائلی علاقوں میں بے شمار ترقیاتی اور خوشحالی کے منصوبے بھی شروع کیے۔ فرنٹیئر کور نے دہشتگردی سے متاثر ان علاقوں کے سکولوں اور کالجوں از سر نو تعمیر اور بحال کیا جن کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا تاکہ قبائلی بچے تعلیم جیسی نعمت سے محروم رہیں۔ ایف سی نے دہشت گردوں کی اس سازش کو ہر بچے کے لیے مفت اور آسان تعلیمی رسائی سے ناکام بنایا۔ کیونکہ فرنٹیئر کور کو معلوم ہے کہ قبائل محب وطن پاکستانی ہیں اور انکے بچے پاکستان کا روشن مستقبل۔ اور کل کو یہ تعلیم یافتہ بچے بھی اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار کریں گے۔ اسی لیے قبائلی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے فریضہ کو اہم اور ترجیحاتی بنیادوں پر لیتے ہوئے پاک فوج، ایف سی اور حکومتی مشران کی بدولت قبائلی علاقوں میں سینکڑوں نئے معیاری تعلیمی ادارے بنائے گئے اور بیسیوں جزوی یا مکمل طور پر تباہ شدہ اداروں کو از سر نو تعمیر کروایا تاکہ ان بچوں کو جو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے۔ اعلی تعلیم کے کیے قائم کیے جانے والے اداروں میں سے ایک مثال مامد گٹ کیڈٹ کالج ضلع مہمند کی ہے۔ جس میں قبائلی بچے بین الاقوامی معیار کی تعلیم سے مستفید ہورہے ہیں اور اپنے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ چند قدم کا فاصلہ خراب سڑکوں کی وجہ سے گھنٹوں میں طے کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کو آمدو رفت میں دقت کا سامنا تھا بلکہ دہشتگردی کی وجہ سے لوگوں کے متاثرہ کاروبار کو سہارا دینے کی بھی اشد ضرورت تھی اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے ایف سی کے مشران نے لوکل کنٹریکٹرز اور حکومت کی مدد سے امتیازی مواصلاتی نظام کا جال بچھانا شروع کردیا۔ سینکڑوں کلومیٹر طویل قومی سطح کی بہترین کشادہ سڑکیں بنائی گئیں اور ساتھ ساتھ تباہ شدہ مارکیٹوں کو ایک نئی شکل دے دی جو جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ اب جس کی بدولت لوگوں کے کاربار میں بھی بہتری آئی ہے اور مقامی لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے۔
قبائلی علاقوں میں امن بحالی کے بعد حکومت اور سیکورٹی اداروں کی اولین ترجیح میں تباہ شدہ مکانات کا معاوضہ دینا تھا تاکہ یہ لوگ اپنے گھروں کو آباد کرکے نئی زندگی شروع کرسکیں ۔ اس مقصد کیلئے ایف سی کی نگرانی میں شفاف سی ایل سی پی سروے کا آغاز کیا گیا جس میں دو علاقائی مشران، ایک ڈیٹا انٹری آفیسر، ایک انجنئیر اور ایک ایف سی کیپٹن شامل تھا۔ پانچ افراد پر مشتمل اس کمیٹی نے متاثرہ خاندانوں کا شفاف ڈیٹا اکھٹا کیا جسکی بنیاد پر پی ڈی ایم اے کیجانب سے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان کے مالکان کو فی خاندان ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے اور مکمل تباہ شدہ مکان والے کو چار لاکھ روپے کا امدادی معاوضہ دیا جاچکا ہے۔ اگر کسی گھر میں ایک سے زائد خاندان مقیم تھے تو انکو فی خاندان کے حساب سے مندرجہ بالا معاوضہ مل چکا ہے اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔
قبائلی عوام کو صاف پانی کی فراہمی ایک خواب تھا جسکو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے ایف سی نے ہر قبائلی ضلع میں صاف پانی کے سینکڑوں پلانٹس لگائے تاکہ لوگوں کو گھر کی دہلیز پر صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
چونکہ ان علاقوں میں جدید طبی و حفظان صحت کی سہولیات اور ہسپتالوں کا فقدان تھا تو یہاں کے عوام کو علاج معالجے کے لیے مجبوراً پشاور اور صوبے کے دیگر بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں جانا پڑتا تھا۔ اب ہر تحصیل میں بی ایچ یو اور ہر ضلع میں دور جدید کا ہیڈکوارٹر ہسپتال موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف سی کیجانب سے فری میڈیکل کیمپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے تحت فرنٹیئر کور جدید ترین میڈیکل کیمپس کا انعقاد کرتی ہے اور دور پار کے دیہاتی علاقوں تک ضروری اور اہم علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔
قبائلی علاقوں میں اکثر قوموں کے مابین تصادم اور دشمنیوں کا طویل سلسلہ چلا آ رہا تھا جس سے علاقائی لوگوں کو شدید مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اس شیطانی روایت کو توڑنے اور قبائلی عوام کو متحد رکھنے کیلئے ایف سی مشران اور علاقائی ملکان پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن کی بدولت آج تک سینکڑوں تنازعات قبائلی روایات کے مطابق امن و عافیت سے حل کروائے گئے ہیں۔
خیبرپختونخواہ کے قبائلی اضلاع میں اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی پالنے سے وابستہ ہے جنکی ضروریات کو دیکھتے ہوئے قبائلی اضلاع کے ہر تحصیل میں ویٹرنری ہاسپٹل اور زرعی مراکز بنائے گئے ہیں۔
دہشت اور خوف کی فضا میں جوان ہوتی ہوئی قبائلی نسل کی ذہنی نشوونما کے لیے ایف سی مشران نے نہ صرف کھیلوں کے میدان بنائے بلکہ ان نوجوانوں کو مالی معاونت بھی فراہم کی گئی تاکہ انکو سپورٹس کٹس خریدنے میں آسانی ہو۔قبائلی علاقوں میں جاری ترقیاتی سفر کی داستان بڑی طویل ہے جسکو ایک آرٹیکل میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ جاری اعدادوشمار کے مطابق امن بحالی کے بعد تقریبا 2900 ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ چکے جن میں ایف سی کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان شاء اللہ فرنٹیئرکور ایسے ہی عوام کی خدمت جاری رکھے گی اور میں ایف سی کے ناقابل فراموش کردار پر انکو دل سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں
پاکستان زندہ باد