کیا آپکو معلوم ہے کہ امریکہ کیسے اپنے سے چھوٹے ملکوں اور کمزور قوموں کو سرنگوں رکھنے کے لیے اپنے مالیاتی اداروں کا استعمال کرتا ہے ۔ اور اس مقصد کے لیے وہ تمام قانونی اور اخلاقی جواز بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اپنی
supermacy بارے ہی سوچتا ہے ۔ اس سلسلے میں انسانی کیا ہر قسم کے حقوق کو بھی بھول جاتا ہے ۔
۔ ایسی ہی واردات امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے ڈالی ہے جس پر افغانی تو امریکہ کو کوس ہی رہے ہیں پر اب دنیا کے بڑے بڑے ممالک امریکہ کو اس بھونڈی حرکت پر خوب لعن طعن بھی کررہے ہیں اور اس کو اسکی اصلیت بھی دیکھا رہے ہیں ۔ آج کا یہ وی لاگ اس ہی بارے میں ہے ۔ ۔ اس وقت دیکھائی یوں دیتا ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان مسلسل ایک Caosکا شکار رہے ہیں حالانکہ پورے افغانستان میں امن آگیا ہے۔ گارنٹی مل چکی ہے کہ ان کی سرزمین کسی کےاور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگا ۔ عورتوں سمیت جتنے بھی حقوق کا انھوں نے مطالبہ کیا وہ مان لیے گئے ہیں ۔ مگر پھر بھی ان کے اپنے ہی پیسے ان کو نہیں دیے جا رہے ہیں ۔ جبکہ اس وقت افغانستان کی پچاس فیصد سے زائد آبادی بھوک وننگ کا شکار ہوچکی ہے ۔ اقوام متحدہ بھی اس خدشہ کا اظہار کرچکا ہے کہ 2022 کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر انسانی حقوق کے champions کو باقی سب کچھ تو دیکھائی دیتا ہے مگر افغانیوں کی یہ حالت زار دیکھائی نہیں دیتی ۔ لگتا یوں ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے حالات کبھی ٹھیک نہ ہوں ۔
۔ اسی حوالے سے چین نے بڑا ہی تگڑا بیان دیا ہے اور وہ کھل افغان عوام کی حمایت میں بول اٹھا ہے ۔ یہاں تک کہ اس سلسلے میں چین نے امریکہ کو ڈاکو قرار دے دیا ہے ۔ اور شاید کچھ غلط بھی نہیں کہا ہے ۔ ۔ دراصل چند روز قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان کے منجمد سات ارب ڈالر کے فنڈز کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے صدارتی حکمنامے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد نصف رقم ۔۔۔ ساڑھے تین ارب ڈالر۔۔۔ افغانستان کے عوام کی انسانی مدد جبکہ بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر گیارہ ستمبر کے حملوں کے متاثرین میں تقسیم کرنے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ صدارتی حکمنامے کے مطابق امریکی انتظامیہ نیویارک کے فیڈرل ریزور میں منجمد افغان اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکے گی اور ان اثاثوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کی فلاح اور افغانستان کے مستقبل پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ مگر یہ باقی ماندہ پیسے خرچ کیے جانے ہیں اس حوالے سے بھی اسٹوری میں twist ہے جو آگے چل کر آپکو بتاتا ہوں ۔ ۔ فی الحال امریکی پستی کی اس سطح پر آ گئے ہیں کہ کمزوروں کی امانتیں بھی ہڑپ کرنے پر اتر آئے ہیں۔۔ کیونکہ یہ جو پیسہ منجمد ہے وہ بنیادی طور پر ان پیسوں پر مشتمل ہے جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی سطح پر افغان عوام کی مدد کے لیے عطیہ کی گئی تھی۔
۔ گذشتہ سال اگست کے مہینے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بہت سی غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا جن کی مجموعی مالیات دس ارب ڈالر بنتی ہے اور ان میں سے سات ارب ڈالر صرف امریکی شہر نیویارک میں موجود ہیں۔ جبکہ دو ارب ڈالر یورپ اور باقی متحدہ عرب امارت میں بھی منجمد ہیں۔ طالبان نے بارہا امریکہ اور غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فنڈ جلد از جلد جاری کیے جائیں تاکہ وہ افغانستان کی بدحال معیشت کو سہارا دے سکیں اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔۔ حقیقت میں یہ جو افغانستان کی امانت چرائی گئی ہے اس کا کوئی بھی شہری ہائی جیکرز میں شامل نہیں تھا۔ پھر افغانستان کی آدھی آبادی نو ستمر کے بعد پیدا ہوئی۔ جن میں سے بہت سے دو وقت کی روٹی کے لیے گردے بیچنے پر مجبور ہیں۔ حالت یہ ہے کہ پورے پورے خاندان زندہ رہنے کے لیے اپنے گردے بیچ رہے ہیں اور یہ امریکی ٹی وی voice of america کی اپنی رپورٹس میں دیکھا جا رہا ہے ۔ مگر کسی امریکی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ۔ ۔ امدادی گروپس اور بین الاقوامی ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ قریب 23 ملین افراد کو۔ جو افغانستان کی نصف آبادی بنتی ہے۔ سخت بھوک کا سامنا ہے جبکہ نو ملین یا 90 لاکھ افراد قحط سالی کے کنارے تک پہنچ چکے ہیں۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ خوراک خریدنے کے لیے ذاتی اشیا بیچنے، گھر کو گرم رکھنے کے لیے فرنیچر تک جلانے اور یہاں تک کہ پیسوں کے لیے اپنے بچے تک فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
۔ پھر طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی زیادہ تر افغان حکومتی اہلکاروں کو دو ماہ سے ان کی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد سے قریب نصف ملین افغان اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔ دوسری طرف ملک سے باہر موجود افغانوں کو وطن میں اپنے رشتہ داروں کو رقوم بھیجنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی ایک وجہ بینکوں کی طرف سے افغانستان کے ساتھ کاروبار میں ہچکچاہٹ ہے اور ان کو ڈر ہے کہ امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائیں ۔۔ سچ یہ ہے کہ نو گیارہ کے سب سے زیادہ متاثرین افغانستان میں رہتے ہیں۔ اگر وہ ہرجانہ وصول کرنے کے قابل ہوتے تو آج ہر امریکی اپنے بچے بیچ رہا ہوتا۔ حقائق یہ ہیں کہ نو ستمبر ہائی جیکنگ میں جن افراد نے براہ راست حصہ لیا یا بلاواسطہ مدد کی۔ ان میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔۔ اس پر سوال تو بنتا ہے کہ اگر متاثرین کو ہرجانا دلوانا ہی تھا تو سب سے موزوں ملک سعودی عرب ہی تھا کہ جس نے امریکہ میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ۔ اس سلسلے میں چینی وزارت خارجہ نے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ افغان عوام کی رضا کے بغیر امریکا نے افغان اثاثوں پر فیصلہ کیا۔ ۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ ترجمان Wang Wen Bin نے کہا کہ امریکی فیصلے سے پھر ثابت ہوا کہ امریکا اپنے دعوؤں کے برعکس کمزوروں کا دفاع نہیں کرتا۔۔ ثابت ہوا امریکا اپنے فیصلے صرف اپنی بالادستی کے لیے کرتا ہے۔ ۔ افغان عوام کے مجرم امریکا کو افغان عوام کی مشکلات بڑھانی نہیں چاہئیں۔ ۔ امریکا کا یہ عمل ڈاکوؤں کے طرز عمل سے مختلف نہیں ہے۔۔ پھر چین نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا کو افغان عوام کے تمام اثاثے غیر منجمد کرنے چاہئیں اور افغانستان سے یک طرفہ پابندیاں جلد ہٹانی چاہئیں۔ امریکا کو افغانستان میں انسانی بحران کم کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ۔ افغانستان کے اثاثوں سے متعلق امریکی فیصلے پر پاکستان بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے ۔ کہ اس سے افغان عوام مزید مشکلات کا شکار ہوں گی ۔ مگر شاید امریکہ کو اس سے فرق نہیں پڑتا یا پھر ان کی خواہش ہی یہ ہے کہ افغانی بحران کا شکار رہیں ۔ ۔ اس حوالے سے طالبان حکومت نے بھی اس امریکی فیصلہ کو چوری اور اخلاقی انحطاط کی نشانی قرار دیا ہے۔
۔ افغانستان کے سابق سیاستدانوں ، عوام ، اکیڈمکس اور دیگر نے بھی اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔سوشل میڈیا پر بھی بہت سے افغانوں نے لکھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن مشکلات میں گھرے افغان شہریوں کا پیسہ چُرا رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کا امریکا میں دہشت گردی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہے منجمد شدہ اثاثوں کی اس طرح تقسیم افغان معیشت کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔۔ افغان پالیسی کے تجزیہ کار اور محقق محسن امین کا کہنا ہے کہ یہ افغان شہریوں کو ان کی اپنی ہی رقم انسانی مدد کے نام پر دی جانا ہے جبکہ ان کی معیشت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔۔ افغان طالبان نے اس حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ اگر افغانستان کےسات ارب ڈالر کے اثاثے بحال نہ کیے تو امریکا سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔۔ ماضی میں بھی طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا مسائل کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔۔ تاہم امریکی حکومت نے نہ تو اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی طالبان اور ان کے سینیئر رہنماؤں پر لگی پابندیوں کا خاتمہ کیا ہے، جو القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کے تناظر میں لگائی گئی تھیں۔ انہی پابندیوں کے سبب یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ افغانستان میں رقوم منتقل کرنا یا اس کے سے ساتھ کاروبار کرنے سے مشکل پیش آ سکتی ہے۔۔ امدادی گروپ اور دیگر ادارے بھی امریکی حکومت اور محکمہ خزانہ سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ کاروباری افراد اور حکومتوں کو یقین دہانی کے خطوط لکھے کہ اگر وہ افغانستان میں کاروبار کرتے ہیں تو انہیں کسی طرح کے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ایک جانب اثاثے منجمند ہیں تو دوسری جانب کوئی بھی افغانستان میں investmentکرتے ہوئے ڈر رہا ہے کہ پابندی نہ لگ جائے ۔
۔ پھر یہ بھی بہت بڑی دونمبری ہے امریکہ کی جانب سے ۔ کیونکہ نو ستمبر کے متاثرین کو پیسے دینے کے باوجود بھی وہ یہ آدھا پیسہ ہڑپ کرنے کے چکر میں ہے ۔ کیونکہ متوقع عدالتی فیصلہ میں اگر ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کو دینے کی منظوری دی جاتی ہے تو بھی ساڑھے تین ارب ڈالر امریکہ ہی میں رہیں گے اور دہشت گردی کے متاثرہ امریکی شہریوں کی طرف سے دعوؤں سے مشروط رہیں گے۔ اس حوالے سے امریکہ نے کہا ہےکہ اس حکمنامے سے افغان عوام تک یہ پیسہ پہنچانے کی راہ ہموار کی گئی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔ یعنی یہ تمام پیسہ بھی امریکہ کمپنیوں یا این جی اوز کے ذریعے ہی افغان عوام کو دیا جاسکے گا ۔ اب یہ افغانیوں تک پہنچتا ہے کہ نہیں اسکی کوئی گارنٹی نہیں ۔ دیکھا جائے تو جو چین نے امریکہ کے لیے ڈکیٹ کا لفظ استعمال کیا یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ جس ملک پر آپ نے مسلسل بیس سال جنگ مسلط کیے رکھی ۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کی جان لی ۔ ہر طرح کا اسلحہ وبارود ان پر آزمایا۔ یہاں تک کہ پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ۔ اب اگر آپ اس کو ملنی والی امداد کے پیسے بھی کھا جائیں تو ڈاکو کہنا بھی انتہائی چھوٹا لفظ ہی دیکھائی دیتا ہے ۔








