امریکی اسلحہ، بھارت کو تحفہ وہ بھی براستہ پاکستان،افغانستان میں بھارت کا کھیل ختم؟ رحیم اللہ یوسفزئی کا خصوصی تبصرہ

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ خطے میں بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے خاص کر افغانستان میں،چائنہ نے آفر کر دی ہے وہاں انفراسٹرکچر ڈیولپ کرنے کے لئے، امریکہ وہاں سے ٹروپ نکال رہا ہے،انڈیا وہاں کسی نی کسی طرح ری کنسٹرکشن کا حصہ دار بننا چاہتا ہے لیکن پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ نہ بنے،مجھے زیادہ حالات کا نہیں پتہ، سینئر دوست کو دعوت دی ہے جن کو حالات کا زیادہ پتہ ہے، رحیم اللہ یوسفزئی

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ یہ بتایئے گا کہ افغانستان پیس عمل شروع ہو گا، یہ صحیح تھا، پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا ،پہلے بھی چھ مہینے لیٹ ہو گیا کرونا کی وجہ سے ،جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کرونا بھی ایک وجہ تھی لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ دونوں میں طالبان امریکہ کا 29 فروری کو معاہدہ ہوا، اس میں کچھ پوائنٹس تھے،انکے اوپر عملدرآمد نہیں ہو سکا، 6 ہزار قیدیوں‌کے تبادلے کا امریکہ نے وعدہ کیا تھا ان میں سے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے سے بہانے کئے جا رہے تھے، 1005 قیدی رہا کر دیئے، اس میں ساڑھے چھ مہینے کی دیر ہو گئی،ورنہ افغان مذاکرات دس دن کے بعد معاہدے کے شروع ہونے تھے اور قیدی رہا ہونے تھے لیکن وہ نہیں ہو سکے، اب بالآخر مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، کئی دور ہو چکے ہیں ،کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، افغان حکومت کا مطالبہ ہے کہ طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں لیکن طالبان نے جواب نہیں دیا، بات چیت جاری ہے، امید ہے اس میں پیشرفت آگے جا کر ہو سکتی ہے

مبشر لقمان نے سوال کہ آپ افغانستان کا مستقبل دیکھ کیا رہے ہیں جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ 42 سال سے جنگ ہو رہی ہے، سوویت یونین نے حملہ کیا، پھر شکست ہوئی تو واپس چلے گئے، پھر امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ ملکر حملہ کر دیا اور کہا کہ افغانستان کی سرزمین سے امریکہ کے اوپر نائن الیون کا حملہ ہوا جو اسامہ نے کیا اور طالبان نے اسکو پناہ دی ہوئی ہے،امریکہ اور نیٹو جنگ کر رہے ہیں ان کو ناکامی ہوئی، براہ راست امریکہ نے طالبان سے 18 مہینے مذاکرات کئے، طالبان کی بات مان لی گئی کہ افغان حکومت کو مذاکرات سے باہر رکھا جائے گا کیونکہ اصل فریق امریکہ اور طالبان ہیں، معاہدہ تو ہو گیا،ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ مذاکرات ختم ہین ہم طالبان کو شکست دیں گے، پھر پاکستان نے کوشش کی،طالبان کے وفد کو دعوت دی، وفد اسلام آباد آیا،پاکستان نے انکی ملاقات کروائی، پھر مذاکرات شروع ہو گئے،مستبقل کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس بار جتنی امید ہے کہ شاید معاملات آگے بڑھیں یا طے پا جائیں اتنی امید پہلے کبھی نہیں تھی، اب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمسایہ ممالک ایران کے علاوہ اس میں شامل ہیں، اس بار اصل فریق اور افغان عوام کی شدید خواہش ہے کہ سیاسی حل نکالا جائے

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں تھوڑا سا تناؤ اس وجہ سے بھی ہے کہ امریکہ کہتا ہے کہ بیت اللہ محسود کو ہم نے آپکی خدمت میں پیش کر دیا لیکن آپ حقانی کو ابھی تک بچا کر رکھ رہے ہیں، کیا آنے والے دنوں میں مزید ٹینشن ہو گی؟ جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں، پاکستان کے خلاف امریکہ کو شکایت تھی کہ پاکستان نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو پناہ دی، کچھ امریکی حکام اور تجزیہ نگار کہتے تھے کہ پاکستان کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی، پاکستان کو شکایت تھی کہ ملک دشمن قوتیں، تحریک طالبان پاکستان اور انکے اتحادیوں کو افغانستان میں پناہ ملی ہوئی ہے، افغان خفیہ ادارے اور بھارتی خفیہ ادارے را افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے، بیت اللہ محسود کو امریکہ نے ڈرون حملے میں وزیرستان میں مار دیا،اسے پاکستان کی شکایت کافی حد تک دور ہو گئی کہ امریکہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف تعاون کر رہا ہے، طالبان کو میز پر لانے کے لئے پاکستان کے تعاون کا امریکہ نے اعتراف کیا ہے،اسوقت تعلقات میں بہتری آئی ہے، ابھی پاکستان کو ایک شکایت ہے کہ امریکہ پاکستان اور چین کے تعلقات کے اوپر ناراض ہے، سابقہ امریکی ڈیفنس سیکرٹری نے ایک بار کہا تھا کہ سی پیک کا منصوبہ متنازع گلگت بلتستان سے گزرتا ہے، اس طرح کی باتیں ہیں امریکہ کو تحفظات ہیں لیکن جب تک امریکہ کی افغانستان سے جان نہیں چھوٹتی تب تک پاکستان کا حمایت اور تعاون امریکہ کو درکار ہے، پاکستان کو نظر انداز نہین کیا جا سکتا

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ امریکہ کے الیکشن نومبر میں ہو رہے ہیں کیا نومبر سے قبل افغانستان سے امریکہ کا مکمل انخلا ممکن ہے جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ امریکہ انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ کچھ فوجی رکھیں گے ، جو طالبان کے ساتھ دوحہ میں معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی تحریر ہے کہ 14 ماہ میں فوج کی واپسی ہو گی، اگلے سال مئی تک چار پانچ ہزار فوجی رہیں گے،یہ طالبان نے مان لیا حالانکہ طالبان کا مطالبہ تھا کہ امریکی فوجیوں‌کو نکالا جائے، سب فریقوں نے کچھ کمپرومائیز کئے معاہدے میں ، طالبان نے مان لیا کہ براہ راست افغان حکومت سے معاہدے کریں گے، معاہدے میں افغان حکومت شامل نہیں تھی لیکن اس نے طالبان کے قیدی رہا کر دیئے،مذاکرات کے لئے جو وہ تیار ہوئے انکی نیت ہے کہ کچھ لے دے کر معاملات طے کریں، امریکہ کے صدارتی انتخاب پر بھی باتوں کا انحصار ہے کہ جنگ سے نکلنا چاہئے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ غیر مصدقہ خبر سنا رہا ہوں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے جتنے کینٹینر براستہ لاہور واہگہ سے ہو کر انڈیا جا رہے ہیں، انکے اندر امریکہ اپنا اسلحہ ٹرانسپورٹ کر رہا ہے اور وہ انڈیا کو دے رہا ہے تا کہ انڈیا پاکستان اور چین کے خلاف استعمال کر سکے، کیا اس خبر میں کوئی صداقت ہے جس پر سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ امریکی اسلحہ بے تحاشا ہے اسکے فوجی اڈے بے شمار ہیں، 5 فوجی اڈوں کو فی الحال خالی کر رہا ہے، فوجیں باقی اڈوں میں جا رہی ہیں، جو بڑا فوجی اڈہ ہے اسکو بھی خالی کر رہے ہیں،ایران کے بارڈر کے قریب اسکو شاید ایران کی تسلی کے لئے، افغان حکومت کا مطالبہ تھا کہ اسلحہ انکو دیا جائے، چھوٹا اسلحہ افغان حکومت کو دیا جا رہا ہے،لیکن ہیوی اسلحہ اور طیارے امریکہ انکو نہیں دے گا، پاکستان کی بھی خواہش تھئ لیکن پاکستان کو بھی نہیں دے جا رہے، امریکہ کے کئی فوجی اڈے اس خطے میں موجود ہیں، بحرین، قطر و دیگر شہروں میں شاید وہاں اسلحہ منتقل کر دے، کینیٹر جو پاکستان سے جاتے ہیں قانونی طور پر انکی تلاشی ہونی چاہئے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے پاکستان نے بھارت کو الاؤ کیا ہے،انڈیا کی چیزیں واہگہ کے راستے چیزیں نہیں جا سکتیں بلکہ کراچی سے جا سکتی ہیں، یہ سیریس معاملہ ہے اسکو تو پاکستان کو دیکھنا چاہئے.

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ انڈیا کا کیا مستقبل دیکھتے ہین افغانستان کے حوالہ سے جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ انڈیا نے بڑی کوشش کی ہے کہ انڈیا نے بڑی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں اسکی واپسی ہو، 1978 میں جب افغانستان میں کمیونسٹ آئے تو انڈیا نے اسکی حمایت کی تھی اور پاکستان نے مخالفت کی تھی، پاکستان نے افغان مجاہدین کو پناہ دی دیگرممالک نے بھی ساتھ دیا لیکن بھارت نے کمیونسٹوں کا ساتھ دیا، لیکن جب مجاہدین کی حکومت آئی تو انکے تعلقات انڈیا کے ساتھ بالکل نہیں تھے، اب بھارت کو یہ فکر ہے کہ امریکہ کی واپسی ہو گئی اور طالبان سیاسی نظام کا حصہ بن گئے، تو پاکستان کو کریڈٹ ملے گا جس کے لئے وہ تیار نہیں، انڈیا امریکی فوجی کی واپسی کے خلاف تھا، امریکہ نے معاہدہ کر لیا، افغان حکومت بات چیت کر رہی ہے، انڈیا نے مشکل سے حمایت کی لیکن موقع کی تلاش میں ہے، اس نے 3 ارب ڈالر خرچ کئے، ترقیاتی کام بھی کئے، افغان فوجیوں کو تربیت بھی بھارت میں ملتی ہے اسنے کافی کچھ کیا،تعلقات قریبی ہیں، پاکستان اور بھارت کے معاملات میں افغانستان غیر جانبدار نہیں ہے، سارک سمٹ جو اسلام آباد میں ہونی تھی پہلے انڈیا نے بائیکاٹ کیا پھر افغانستان نے بھی بائیکاٹ کیا جسکہ وجہ سے کانفرنس ملتوی ہوئی، انڈیا چاہے گا کہ پاکستان کو جو پہلے ایک اہمیت حاصل تھی افغانستان میں وہ نہ حاصل ہو ،اگر ایسا ہوا تو افغانستان میں انڈیا کا کردار کم ہو جائے گا، پاکستان کے پاس شواہد ہیں کہ بھارت کی را اور افغان کی این ڈی اے ملکر تحریک طالبان پاکستان، داعش کی حمایت کر رہے ہیں تا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے

مبشر لقمان نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجی مئی تک نکل جائے گی، افغان کا ہرہوائی اڈہ امریکہ کے پاس ہے کیا وہ خالی کرے گا، جس پر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ معاہدے میں ہے کہ 5 اڈے خالی کرنے ہیں، اور اس میں فوجی اڈے شامل ہیں، بقیہ جو اڈے ہیں انکے بارے میں اگلے سال مئی میں جب سارے غیر ملکی فوجی نکل جائیں گے تو خالی کرنے پڑیں گے، طالبان نے کہا ہے کہ مئی کے بعد ایک بھی غیر ملکی فوجی نہیں رہے گا، پھر انکو جانا پڑے گا،ٹرمپ سمجھتا ہے کہ اس معاہدے سے الیکشن میں کوئی فائدہ ملتا ہے تو معاہدہ کیا، آگے جا کر کیا ہوتا ہے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوا تو طالبان ہاوی ہوں گے، ممکن ہے کہ وہ یہ معاہدہ بھی ختم کر دیں، جس پر مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ایک ناقابل اعتبار شخصیت ہے.

Shares: