ایک ایماندار اور فرض شناس آفیسر۔۔۔!!!
تحریر : شوکت ملک
مملکت خداداد میں موجودہ دور میں کوئی بھی کام سفارش اور رشوت کے بغیر کرانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، دو نمبر کام کےلیے رشوت کا بازار گرم کرنے میں جتنا ہاتھ سرکاری محکموں میں بیٹھے افسران و ملازمان کا ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارا بھی ہے، کیونکہ کسی بھی جائز و ناجائز کام کےلیے رشوت کی آفر سب سے پہلے ہم خود کرتے ہیں اور دیتے ہیں، جس کے باعث یہ ناسور اتنا پھیل چکا ہے کہ اب اس سے بچنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے، مگر سرکاری محکموں میں آج بھی کئی ایک ایماندار افسران بیٹھے ہیں جنہوں نے اس ناسور کیخلاف اعلان بغاوت کر رکھا ہے جن میں سے ایک نام انچارج ڈرائیونگ لائسنس ڈسٹرکٹ کیماڑی بلدیہ ٹاؤن برانچ ڈی ایس پی منیر احمد اعوان صاحب کا بھی ہے۔
گزشتہ روز کراچی ڈسٹرکٹ کیماڑی بلدیہ ٹاؤن ڈرائیونگ لائسنس برانچ جانا ہوا، جہاں پر کرپشن اور رشوت جیسے ناسور کیخلاف انتہائی بہادری اور جرات مندانہ طریقے سے لڑنے والے انتہائی فرض شناس، ایماندار، خوش اخلاق، خوش لباس، خوش گفتار، خوش شکل ڈی ایس پی منیر احمد اعوان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جن کی ایمانداری اور فرض شناسی کے چرچے گزشتہ کئی ماہ سے سن رکھے تھے، اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنانے کےلیے ڈی ایس پی آفس گیا تو ڈی ایس پی منیر احمد اعوان وہاں پر تشریف فرما اپنے کسی مہمان کو بتا رہے تھے کہ جب میری پوسٹنگ بلدیہ ٹاؤن ڈرائیونگ لائسنس برانچ ہوئی مجھے کہا گیا ڈی ایس پی صاحب یہاں لوٹ مار کا بازار اس قدر گرم ہے کہ آپ اس سسٹم کیساتھ نہیں لڑ سکتے، مگر ڈی ایس پی منیر احمد اعوان کا کہنا تھا کہ میں نے کہا وہ میرا مسئلہ ہے مجھے اچھی طرح معلوم کہ سسٹم کو کیسے رشوت خوری جیسے ناسور سے پاک کرنا ہے اور میری موجودگی میں میرے سٹاف کا کوئی بندہ رشوت لے کر دکھائے میرا کھلا چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے پورے سٹاف کو بتایا ہے کہ رشوت کا ایک روپیہ بھی اگر کسی نے لیا یا کسی شہری کیساتھ بدتمیزی کی، مِس بی ہیو کیا تو نہ صرف اس کیخلاف ایف آئی آر درج کروں گا بلکہ اس کو نوکری سے بھی فارغ کراؤں گا چاہیے اس کےلیے مجھے خود کورٹس کے چکر ہی کیوں نہ لگانے پڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پوسٹنگ کے بعد بہت سارے لوگوں نے مجھے میرے آفس آ کر بھی آفرز کی اور کہا صاحب چھوڑیں جیسے پہلے سسٹم چل رہا تھا ویسے ہی چلنے دیجئے مگر میں نے کہا میری موجودگی میں ایسا کوئی سوچے بھی مت، ان کی گفتگو مکمل ہونے کے بعد میں نے کہا سر میں کچھ بات کر سکتا ہوں جس پر انہوں نے کہا بیٹا ضرور بات کریں لیکن پہلے مجھے یہ بتائیے کہ آپ سے لائسنس کے سرکاری فیس کے علاوہ کسی نے کوئی پیسے تو نہیں مانگے، میں نے کہا نہیں سر بلکل بھی نہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا اب آپ اپنی بات کیجئے، میں نے اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے ایک ورکنگ جرنلسٹ ہوں اور یہ سن کر ہی یہاں آیا ہوں کہ بلدیہ ٹاؤن برانچ میں ایک ایماندار ڈی ایس پی آیا ہے جوکہ نہ رشوت لیتا ہے اور نہ ہی کسی کو لینے دیتا ہے، اور واقعی آج خود سارے پراسس سے گزر کر یقین ہوگیا کہ جہاں پر ایک ایک لائسنس کے بطورِ رشوت ہزاروں روپے بٹورے جاتے تھے وہاں پر رشوت کا نام تک موجود نہیں، میں نے کہا سر، سندھ جیسے صوبے میں جہاں کی گورنمنٹ سمیت تمام سرکاری محکمے ہی کرپشن اور رشوت خوری کا گڑھ بنے ہوئے ہیں وہاں پر ایسے ناسور کیخلاف دیدہ دلیری سے لڑنے پر آپ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
جس پر ان کا کہنا تھا کہ بیٹا اس میں میرا کچھ کمال نہیں بس اللّٰہ پاک کیساتھ ایمان کا ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو نہ صرف خود حرام کھانے اور اپنے بچوں کو کھلانے سے روکتا ہے بلکہ اپنے ماتحت دوسرے لوگوں کو بھی حرام کھانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی میری سروس کے دوران کسی کی مجال ہے کہ وہ دو نمبر کاموں کے پیسے لے کر خود بھی حرام کھائے اور اپنے بچوں کو بھی کھلائے، کم از کم میرے ہوتے ہوئے ایسا ناممکن ہے، گفتگو کے اختتام پر پوچھنے پر معلوم ہوا ڈی ایس پی منیر احمد اعوان صاحب کا تعلق بھی شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین چکوال سے ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا اگر منیر احمد اعوان جیسے ایماندار اور فرض شناس آفیسرز کو سرکاری محکموں میں بلا روک ٹوک، بغیر کسی دباؤ ایمانداری سے کام کرنے دیا جائے اور پروموٹ کیا جائے تو یقیناً ترقی و خوشحالی ہمارا مقدر ہوگی۔ اللّٰہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Shares: