اندر کا خاموش معمار — ریاض علی خٹک
اُردن کے تاریخی شہر جرش کی تاریخ بہت قدیم ہے. عیسی علیہ السلام سے چار صدی پہلے سکندرِ اعظم کے دور میں یہ شہر آباد ہوا. لیکن اسے عروج رومن دور میں ملا. آج یہ رومن دور کے آثارِ قدیمہ سے بھرا ایک مشہور سیاحت کا مقام ہے. اسکا تھیٹر ہو یا قدیم معبد آج بھی اپنی شان و شوکت سے دیکھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں.
دیکھنے والے جب رومن دور کے کھڑے وہ لمبے ستون دیکھتے ہیں جسے تراشے پتھروں سے کھڑا کیا گیا ہے یا تھیٹر کی سنگلاخ سیڑھیوں پر بیٹھ کر میدان میں دیکھتے ہیں تو ان نامعلوم معماروں کے فن کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس قدیم دور میں وہ تعمیر کھڑی کی جسے صدیوں کی مسافت بھی مکمل ڈھیر نہ کر سکی.
ہم انسانوں کی یہ عادت ہے ہم متاثر دیکھ کر ہوتے ہیں. آپ کوئی گاڑی خریدنے جائیں تب بھی پہلے اس کی باڈی رنگ اور ڈیزائن دیکھیں گے. یہاں اگر آپ متاثر ہوئے تب انجن اور فیچرز سمجھنے کی کوشش شروع کریں گے. ہم دوسرے انسانوں کو بھی پہلے شکل لباس اور نشست و برخاست پر تولتے ہیں. اگر متاثر ہوئے تب ہی اس کے شعور اس کی شخصیت پر جاتے ہیں.
رومنز کو یہ صدیوں پہلے پتہ تھا. اس لئے آج بھی بھلے ہم ان تاریخی مقامات کے معماروں کو نہیں جانتے لیکن ان کی پہچان زندہ ہے. جب کوئی اس انسانی وصف کے خلاف چلتا ہے تب اسے بہت مایوسی ہوتی ہے. لوگ تھیٹر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ غریب نیچے میدان میں تماشا بن جاتے ہیں.
لوگ آپ کا پہناوا سلیقہ اور تہذیب دیکھ رہے ہوتے ہیں. آپ کے اندر کا خاموش معمار اگر چاہتا ہے کہ لوگ اس سے متاثر ہوں تو اسے اس پر وقت محنت اور سرمایہ خرچ کرنا ہوگا. ہاں البتہ اگر کسی کو متاثر کرنے کی خواہش ہی نہیں تب آپ آزاد ہیں. دیو جانس قلبی کی طرح سکندرِ اعظم بھی آپ کے سامنے کھڑا ہو کر پوچھے کیا چاہتے ہو. آپ اسے بول سکتے ہیں سامنے سے ہٹو دھوپ آنے دو. مجھے کچھ دھوپ چاہئے.