آنکھ سے دل دکھائی دیتا ہے، کوئی دھوکہ میں کھا نہیں سکتی

0
88

مجھ سے اونچا ہونے کو وہ
پنجوں کے بل کھڑا ہوا ہے

25 اپریل 2017
فرزانہ ناز کا یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ایک نئی ابھرتی ہوئی معصوم صورت شاعرہ فرزانہ ناز صاحبہ آج سے ٹھیک 6 برس قبل آج ہی کی تاریخ 25 اپریل 2017 کو ایک افسوسناک حادثہ کے نتیجے میں جانبحق ہو گئی تھیں ۔ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کے زیر اہتمام 22 اپریل تا 24 اپریل 2017 کو پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کے آڈیٹوریم ہال میں منعقد ہونے والے 3 روزہ آٹھویں قومی کتب میلہ میں 24 اپریل کی شام فرزانہ ناز تقریب کے مہمان خصوصی کو اپنی شاعری کی کتاب پیش کرنے کے بعد واپسی پر اسٹیج سے سیڑھیاں اترتی ہوئی گر گئیں جس کے نتیجے میں ان کے سر پر شدید چوٹیں آئیں اور ریڑھ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ۔

تقریب میں وفاقی وزیر احسن اقبال، عرفان صدیقی ، عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی موجود تھے جن کی ہدایت پر فرزانہ ناز کو فوری طور پر شفاء انٹر نیشنل ہسپتال داخل کرا دیا گیا تھا ڈاکٹروں سخت محنت اور کوشش کے باوجود فرزانہ ناز جانبر نہ ہو سکیں اور 25 اپریل کی صبح ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سےجا ملیں اس تقریب میں حسب معمول ان کے دو کمسن بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور ان کے خاوند اسماعیل بشیر بھی موجود تھے ۔

فرزانہ ناز جنوری 1991 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئی تھیں انہوں نےمیٹرک بھلوال گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول سےعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو کیا تھا ۔ انہوں نے ایک ادبی تنظیم ” کسب کمال” کی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ادبی سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں ۔ وہ زیادہ تر مشاعروں کی نظامت کی ذمے داریاں سنبھال لیتی تھیں ۔

مشاعروں میں ان کے شوہر ان کے دونوں کمسن بچے ہمراہ ہوتے تھے ۔ حادثے کے روز بھی وہ ان کے ساتھ ہی تھے ۔ فرزانہ ناز کا پہلا شعری مجموعہ ” ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے ” ان کی موت سے چند روز قبل شائع ہوا تھا ۔ 3 مئی 2017 کو راولپنڈی آرٹس کونسل میں ان کی شاعری کی کتاب کی رونمائی کے لیے تاریخ طے کر دی گئی تھی مگر افسوس کہ وہ اس سے قبل ہی دنیا سے ” ہجرت ” کر گئیں ۔ ان کی حادثاتی موت کے باعث راولپنڈی اور اسلام آباد کی ادبی فضا سوگوار ہو گئی تھی اور ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے تاہم ذرائع کے مطابق ان کی نماز جنازہ میں کوئی بھی حکومتی نمائندہ شریک نہیں ہوا تھا۔

فرزانہ ناز صاحبہ کی شاعری سے انتخاب

ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے
پاوں میں کتنے اور سفر ہیں

کب سے ضد پہ اڑا ہوا ہے
ایسے بھی کوئی بڑا ہوا ہے

مجھ سے اونچا ہونے کو وہ
پنجوں کے بل کھڑا ہوا ہے

تماشہ گر ہمیشہ پس دیوار ہوتا ہے
کہانی خود نہیں بنتی کہانی کار ہوتا ہے

مری حیرانیوں پہ مسکرا کے مجھ سے ہے کہتا
یہ دنیا ہے یہاں سب کچھ مری سرکار ہوتا ہے

الجھے رستوں پہ جا نہیں سکتی
تیری باتوں میں آ نہیں سکتی

آنکھ سے دل دکھائی دیتا ہے
کوئی دھوکہ میں کھا نہیں سکتی

Leave a reply