برسلز: ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف انٹارکٹیکا میں تین لاکھ سے زائد شہابیے یا آسمانی پتھر موجود ہوسکتے ہیں۔
باغی ٹی وی : ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جتنے شہابیے ہیں ان کی 66 فیصد تعداد انٹارکٹیکا سے ہی اٹھائی گئی ہے سفید برف میں دبے گہرے رنگ کے پتھر آسانی سے شناخت کئے جاسکتے ہیں اب مصنوعی ذہانت سے پتا چلا ہے کہ شہابی پتھر کہیں بھی گریں ان پر مزید برف پڑتی رہتی ہے اور وہ خود برف کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن اس پر وہ رکتے نہیں اور کھسک کر براعظم کے کناروں تک پہنچتے رہتے ہیں اور وہاں جمع ہوجاتے ہیں اب انہیں تلاش کرنا قدرے آسان ہوگا-
مصر سے ابوالہول جیسے 3,400 سال پرانےدو مجسمے دریافت
اس مقام کو ’نیلی برف‘ کہا گیا ہے کیونکہ ہوا کے دوش پر برف ہلکی ہوتی ہے اور اس میں نیلی رنگت نمایاں ہوتی ہے اس سے پہلے بھی نیلی برف سے ہی شہابی پتھرملتے رہے ہیں۔
جامعہ برسلز میں گلیشیئر کی ماہر ڈاکٹر ویرونیکا ٹولے نار اور ان کے ساتھیوں نے سیٹلائٹ تصاویر اور مصنوعی ذہانت سے ان مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں شہابی پتھر موجود ہوسکتے ہیں سافٹ ویئر نے 83 فیصد درستگی سے 600 ایسے مقامات کی نشاندہی کی جہاں شہابئے موجود ہوسکتے ہیں ڈرون اور دیگر ٹیکنالوجی کی مدد سے وہاں شہابیوں کی شناخت کرکے انہیں با ہرنکالا جاسکتا ہے اس پورے نقشے کو خزانے کا نقشہ کہا گیا ہے۔
پرانی باتیں بھول کر ہم نئی چیزیں اور مہارتیں سیکھنے کا عمل بہتر بناتے ہیں،ماہرین
شہابی پتھر ہمارے نظامِ شمسی میں گھوم رہے ہیں اور ان کے ٹکڑے زمین کے پاس سے گزرتے ہوئےثقلی قوت سے زمین کی جانب لپکتے ہیں یہ اکثر فضا سے رگڑ کھاکر بھڑک اٹھتے ہیں اور روشنی کی ایک لکیر کی شکل میں بھسم ہوجاتے ہیں لیکن بعض پتھر زمین پر آگرتے ہیں ان کے مطالعے سے نظامِ شمسی کے ماضی اور خود اس کی تشکیل کی معلومات مل سکتی ہیں۔