ہمارا معاشرہ خود کو خاندانی نظام کا محافظ کہتا ہے، لیکن اس خاندانی نظام میں اکثر والدین اپنی اولاد کو محض ایک سہارا، ایک ضمانت یا ایک سرمایہ سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ کہ ’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اس لیے تم پر ہمارا حق ہے‘‘ ایک زنجیر بن کر رہ گئی ہے جو نسل در نسل بچوں کو غلامی میں جکڑے رکھتی ہے۔

اکثر والدین بچوں کو تعلیم بھی اس نیت سے دلاتے ہیں کہ کل کو یہی اولاد ان کی بڑھاپے کی لاٹھی ہو، ان کی محرومیوں کا مداوا کرے اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لے۔ بچہ ہو یا بچی — کوئی اس بوجھ سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ خواہ اس کے خواب کچلے جائیں، اس کی خواہشات روندی جائیں، یا وہ ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرتا رہے — اس پر فرض ہے کہ وہ والدین کی نااہلی اور غیر ذمہ داری کی قیمت اپنی صحت، اپنی زندگی اور اپنی آزادی سے چکاتا رہے۔

اس ظلم کو ’’والدین کا حق‘‘ کہہ کر جسٹیفائی کیا جاتا ہے۔ وہ والدین جو خود اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھانے سے بھاگ جاتے ہیں، وہی اپنے بچوں کی قربانیوں کو اپنا حق سمجھ کر بے حسی سے تماشہ دیکھتے ہیں۔ بچے دل پر پتھر رکھ کر اپنی خوشیاں دفن کر دیتے ہیں، مگر والدین کی بھوک پھر بھی نہیں مٹتی۔

سوال یہ ہے کہ اگر اولاد ہمارے سہارے کی ضرورت ہے تو کیا ہمیں ان پر بوجھ ڈالنے کا حق ہے؟ کیا ان کی تعلیم، ان کی محنت اور ان کا کمال صرف اس لیے ہے کہ وہ والدین کی ناکامیوں کا بوجھ اٹھائیں؟ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک شخص کی پوری زندگی اس امید میں گزر جائے کہ شاید ایک دن وہ اپنی ذات کے لیے بھی جی سکے مگر وہ دن کبھی نہ آئے؟

ہمیں ماننا ہوگا کہ اولاد پر حق محبت، تربیت اور رہنمائی کا ہے — غلامی کا نہیں۔ اولاد کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ ان کی تعلیم ان کا حق ہے، اس پر والدین کی خدمت کے نام پر قبضہ نہیں۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا کہ اگر ہم نے زندگی دی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کی زندگی کو اپنی خود غرضی سے برباد کر دیں۔

اگر ہم واقعی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں انہیں محبت دینی ہوگی بوجھ نہیں۔ انہیں سہارا دینا ہوگا . سہارے کے نام پر ان کے کندھے توڑنے نہیں۔ ورنہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی غلامی کو اپنا مقدر سمجھ کر آگے منتقل کرتی رہیں گی، اور یہ درد کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Shares: