معاشرہ کسی بھی دور میں دو طبقات کی بنیاد پر تولا جاتا ہے،اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے، اور اپنی عورتوں کے حال کے حوالے سے۔ جس معاشرے میں عورت خوف کے سائے میں زندگی گزارے، وہاں ترقی کے خواب کاغذوں میں تو بنتے ہیں، مگر حقیقت میں کبھی جڑ نہیں پکڑتے۔عورت کمزور نہیں ہوتی؛ یہ حقیقت ہماری تاریخ، ثقافت اور روزمرہ زندگی کے ہر باب میں لکھی ہوئی ہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ وہ اکثر خاموش رہ جاتی ہےاور یہی خاموشی سب سے بڑا المیہ ہے۔عورت کی چپ اکثر وہ احتجاج ہے جسے سننے کے لیے ہمارے پاس نہ وقت ہوتا ہے، نہ توجہ، اور نہ ارادہ۔ وہ اپنے دکھ کے ساتھ جیتی ہے، اپنے زخم چھپاتی ہے، اور ایک ایسے نظام کا حصہ بن کر رہتی ہے جو اسے بولنے بھی نہیں دیتا، اور چپ رہنے پر بھی قصوروار ٹھہراتا ہے۔
ہم نے صدیوں سے یہ تاثر پالا ہوا ہے کہ تشدد کا مطلب صرف جسم پر نشان چھوڑ دینا ہے۔ مگر وہ تشدد جو نظر نہیں آتا، زیادہ گہرا، زیادہ مستقل اور زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔تلخ الفاظ، طنزیہ جملے، بے توقیری کے طعنے، یہ سب دل پر ایسے نقش چھوڑتے ہیں جنہیں کوئی مرہم نہیں بھر سکتا۔کسی عورت کو اس کے خواب پورے کرنے سے روک دینا، اس کے فیصلے بے حیثیت سمجھنا، اس کی آزادی کو مشروط کر دینا،یہ تشدد کی وہ صورتیں ہیں جنہیں ہمارا معاشرہ معمول سمجھ کر قبول کیے بیٹھا ہے۔اور شاید سب سے خطرناک تشدد وہ ہے جس میں عورت کو خاموش رہنا سکھا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے خوف کو تقدیر سمجھنے لگتی ہے، اور اپنے دکھ کو زندگی کا لازمی حصہ۔ اس خاموشی کی قیمت صرف وہ نہیں چکاتی، بلکہ پورا سماج چکاتا ہے،پست ذہنیت، عدم تحفظ اور بے حسی کی صورت میں۔
یہ حقیقت باربار دہرائی جانی چاہیے کہ عورت کی عزت کسی کردار، کسی رشتے یا کسی ذمہ داری کی مرہونِ منت نہیں۔ وہ احترام کی حقدار ہے کیونکہ وہ ایک مکمل انسان ہے۔ہماری تہذیب، ہمارا مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار سب اس امر پر متفق ہیں کہ عورت کا وقار اس کے وجود سے وابستہ ہے،نہ کہ اس کردار سے جو اسے معاشرہ دیتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی عورت کے اس حق کو پہچانتے بھی ہیں یا صرف کتابوں اور تقریروں میں اس کا ذکر کر کے خود کو مطمئن کر لیتے ہیں؟معاشرے کو بدلنے کا آغاز گھر سے کریں،اصلاح کی راہ کسی بڑے نعرے سے نہیں، چھوٹے رویّوں سے شروع ہوتی ہے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اعتماد دے، ایک شوہر اپنی بیوی کی رائے کو اہمیت دے، ایک بھائی اپنی بہن کے خوابوں کا احترام کرے،یہی وہ چھوٹے قدم ہیں جو ایک بڑے معاشرتی انقلاب کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔
یہ سوچ بدلنا ہوگی کہ عورت کی آواز بلند ہونا بغاوت ہے؛حقیقت یہ ہے کہ عورت کی آواز دبانا ظلم ہے۔عورت کے لیے محفوظ ماحول مہیا کرنا ہوگا، نہ صرف گھر میں بلکہ معاشرے کے ہر دائرے میں۔اسے تعلیم، رائے اور فیصلے کا حق دینا ہوگا۔اس کے جذبات کو کمزوری نہیں، اس کی طاقت سمجھنا ہوگا۔اور سب سے بڑھ کر ہمیں اس کی خاموشی کو پہچاننا ہوگا، کیونکہ اکثر وہیں سب سے بڑی کہانی چھپی ہوتی ہے۔
عورت کمزور نہیں، مگر وہ تھک جاتی ہے۔اس کی برداشت لامحدود ضرور ہے، مگر اس کی خاموشی صدیوں کی روایت نہیں ہونی چاہیے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کے اندر چھپی اس اذیت، اس بے بسی، اور اس خاموش احتجاج کو سنیں۔معاشرہ تب تک متوازن نہیں ہو سکتا جب تک عورت اپنی زندگی وقار، آزادی اور تحفظ کے ساتھ نہ گزار سکے۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اسے چپ کروانے والے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں،یا ایسا سماج چاہتے ہیں جہاں عورت کی آواز کو دبایا نہیں جاتا، سنا جاتا ہے۔








