مزید دیکھیں

مقبول

پاکستانی طالبعلم کا اعزاز، موسیٰ ہراج آکسفورڈ یونین کے صدر منتخب

کبیروالا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالب علم موسی...

بالی ووڈ ادکارہ حادثے کا شکار،اسپتال سے تصاویر وائرل

ممبئی: 1989 کی مشہوربالی وڈ فلم’ میں نے پیار...

سیالکوٹ: رمضان سہولت بازار: اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں کمی

سیالکوٹ ، باغی ٹی وی( بیوروچیف شاہد ریاض) ڈپٹی...

ایک سال میں جو کچھ بھی ممکن تھا، وہ کیا ،وزیراعلیٰ سندھ

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ...

آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں

ساحر لدھیانوی ایک جاگیردار گھرانے میں 8 مارچ 1921 کو پیدا ہوئے اور ان کا نام عبدالحئی رکھا گیا۔ان کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا اور وہ انکی گیارھویں، لیکن خفیہ ،بیوی سردار بیگم سے ان کی پہلی اولاد تھے۔ساحر کی پیدائش کے بعد ان کی ماں نے اصرار کیا کہ ان کے رشتہ کو باقاعدہ شکل دی جاے تاکہ آگے چل کر وراثت کا کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔

چودھری صاحب اس کے لئے راضی نہیں ہوئے تو سردار بیگم ساحر کو لے کر شوہر سے الگ ہو گئیں ۔اس کے بعد ساحر کی تحویل کے لئے فریقین میں مدّت تک مقدمہ بازی ہوئ۔ساحر کی پرورش ان کے ننہال میں ہوئی۔جب اسکول جانے کی عمر ہوئی تو ان کا داخلہ مالوہ خالصہ اسکول میں کرا دیا گیا جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس زمانہ میں لدھیانہ اردو کا متحرک اور سرگرم مرکز تھا ۔یہیں سے انہیں شاعری کا شوق پیدا ہوا اور میٹرک میں پہنچتے پہنچتے وہ شعر کہنے لگے۔

1939 میں اسی اسکول سے انٹرنس پاس کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا۔اسی زمانہ میں ان کا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا اور وہ کمیونسٹ تحریک کی طرف راغب ہو گئے۔ملک اور قوم کے حالات نے ان کے اندر سرکشی اور بغاوت پیدا کی۔بی اے کے آخری سال میں وہ اپنی اک ہم جماعت ایشر کور پر عاشق ہوے اور کالج سے نکالے گئے۔وہ کالج سے بی اے نہیں کر سکے لیکن اس کی فضا نے ان کو اک خوبصورت رومانی شاعر بنا دیا۔ان کا پہلا مجموعہ "تلخیاں” ۱۹۴۴ میں شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

کالج چھوڑنے کے بعد وہ لاہور چلے گئے اور دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ وہاں سے بھی نکالے گئے پھر ان کا دل تعلیم کی طرف سے اچاٹ ہو گیا۔وہ اس زمانہ کے معیاری ادبی رسالہ "ادب لطیف "کے ایڈیٹر بن گئے۔بعد میں انھوں نے سویرا اور اپنے ادبی رسالہ شاہکار کی بھی ادارت کی ساحر نے بچپن اور جوانی میں بہت پر خطر اور کٹھن دن گزارے جس کی وجہ سے انکی شخصیت میں شدید تلخی گھل گئی تھی۔

دنیا سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کی ایک زیریں لہر ان کی شخصیت میں رچ بس گئی تھی جس کے مظاہر وقتا فوقتا” سامنے آتے رہتے تھے ساحر نے جتنے تجربات شاعری میں کئے وہ دوسروں نے کم ہی کئے ہوں گے۔انھوں نے سیاسی شاعری کی ہے،رومانی شاعری کی ہے،نفسیاتی شاعری کی ہے اور انقلابی شاعری کی ہے جس میں کسانوں اور مزدوروں کی بغاوت کا اعلان ہے۔انھوں نے ایسی بھی شاعری کی ہے جو تخلیقی طور پپر ساحری کے زمرہ میں آتی ہے-

انکی ادبی خدما ت کے اعتراف میں انہیں ۱۹۷۱ میں پدم شری کے خطاب سے نوازا گیا۔۱۹۷۲ میں مہارازشر حکومت نے انہیں "جسٹس آف پیس” ایوارڈ دیا ۱۹۷۳ میں "آو کہ کوئی خواب بُنیں” کی کامیابی پر انھیں "سویت لینڈ نہرو ایوارڈ” اور مہاراشٹر اسٹیٹ لٹریری ایوارڈ ملا۔۱۹۷۴ میں مہاراشٹر حکومت نے انھیں ‘اسپشل ایکزیکیوٹیو مجسٹریٹ نامزد کیا۔ان کی نظموں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔۸مارچ ۲۰۱۳ء کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر محکمہ ڈاک نے اک یادگاری ٹکٹ جاری کیا ۲۵ اکتوبر،۱۹۸۰ میں دل کا دورہ پڑنے سے ممبئی میں وفات پاگئے.

ساحر لدھیانوی کے یوم پیدائش پر انکے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت.

*میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے*
۔۔۔۔۔۔۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی
۔۔۔۔۔۔۔
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں