جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط لکھ دیا

عدلیہ کو آزاد، غیرجانبدار، ججز کو لائق اور ایماندارہونا چاہیے،جسٹس جمال خان مندوخیل کا جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط
justice mansor

سپریم کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے عدلیہ میں ججز تعیناتی کے حوالے سے رولز بنانے اور سخت میکنزم کے لیے لکھے گئے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا

جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا کہ آپ کی تجاویز کو پہلے بھی consider کیا کل کے خط والی بھی دیکھیں گے آئندہ بھی آپ اپنی تجاویز رولز کمیٹی کو دے سکتے ہیں 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں بھی آپ نے بات کی لیکن میں اس کا جواب اس لیے نہیں دوں گا کیوں کہ اس کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں آپ نے لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے کو نام تجاویز کئے وہ رولز کے مکمل ہونے کے بعد دے سکتے ہیں میری بھی یہی رائے ہے کہ آئین کی منشا یہی ہے کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہونی چاہیے عدلیہ کے ممبران قابل اور دیانتدار ہونے چاہییں اسی مقصد کے لئے رولز بنا رہے ہیں ”

پاکستان کی عدلیہ میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، جس کے تحت ججوں کی تقرری کے لیے نئے قواعد تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج، جسٹس سید منصور علی شاہ کو جسٹس جمال خان مندوخیل نے جوابی خط لکھا جس میں نئے قواعد کی تیاری کے عمل اور اس میں ہونے والی پیشرفت پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا کہ آئین میں 26 ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا دوبارہ قیام عمل میں آیا ہے، جس میں سپریم کورٹ کے جج سمیت دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔خط میں بتایا گیا کہ جے سی پی نے 6 دسمبر 2024 کو ہونے والے اپنے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 4 کے تحت ججوں کی تقرری کے معیار اور طریقہ کار کے لیے قواعد تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کا مقصد ججوں کی تقرری کے عمل میں شفافیت اور معیار کو بہتر بنانا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جو ججز منتخب ہوں، وہ قابل، ایماندار اور غیر جانبدار ہوں۔کمیٹی کے اجلاس میں 2010 کے جے سی پی کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے قواعد کی تیاری پر غور کیا گیا۔ اس میں سپریم کورٹ کے جج، اٹارنی جنرل آف پاکستان، سینیٹر فاروق حمید نائیک اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کی آزادی اور عدلیہ کی غیر جانبداری آئین کے بنیادی اصول ہیں، اور ان کے مطابق ہی نئے قواعد کو مرتب کیا جائے گا۔

خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی ترقی کے لیے اپنے امیدواروں کے نام تجویز کیے تھے، جنہیں نئے قواعد کی منظوری کے بعد پیش کیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کی اگلی میٹنگ 16 دسمبر 2024 کو ہونے والی ہے جس میں مزید تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ خط میں یہ بات بھی کی گئی کہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں اٹھائے گئے سوالات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ تاہم، عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کو مقدم رکھنے کا عہد کیا گیا ہے۔خط کے آخر میں کہا گیا کہ عدلیہ پاکستان کے عوام کا ادارہ ہے اور جے سی پی کے تمام ارکان کو نئے قواعد کی تیاری کے عمل میں مکمل شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ کمیٹی کی طرف سے تیار کردہ ڈرافٹ قواعد کو جے سی پی کی اگلی میٹنگ میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد ان پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

دہلی میں فضائی آلودگی،بچے بیمار،شہری دہلی چھوڑنے لگے

اسرائیل نے شام کے بلندترین پہاڑوں پر قبضہ کیوں کیا

سول نافرمانی تحریک مؤخر کریں، محمود اچکزئی کی پی ٹی آئی سے اپیل

Comments are closed.