اوچ شریف (باغی ٹی وی، نامہ نگار حبیب خان) احمدپور شرقیہ کے نواحی گاؤں اسماعیل پور میں کم عمری کی شادی کا ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں 18 سال سے کم عمر لڑکے محمد اسامہ گھلو کا نکاح کروا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ نکاح باقاعدہ تقریب کے ساتھ انجام پایا، جہاں نکاح خواں نے نکاح پڑھایا، دلہے کو ہار پہنائے گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب کچھ باشعور شہریوں نے میڈیا اور متعلقہ اداروں کو مطلع کیا، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ پولیس حرکت میں آئی، نہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے نوٹس لیا اور نہ ہی تحصیل یا ضلعی انتظامیہ نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر کیا۔

یہ امر باعث تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے کم عمری کی شادیوں کے خلاف منظور کیے گئے سخت قوانین محض کاغذی کارروائی بن کر رہ گئے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق اگر کوئی والدین اپنے کم عمر بچوں کی شادی کرواتے ہیں یا نکاح خواں، گواہ یا سہولت کار اس عمل میں شریک ہو تو ان سب کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے، مگر یہاں قانون کا عملی نفاذ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صورتحال نہ صرف قانون کی کمزوری کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ معاشرے میں موجود عمومی بے حسی کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

اس واقعے پر علاقے کے شہری حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک شادی نہیں بلکہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی اور انتظامیہ کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو حکومت بین الاقوامی دباؤ کے تحت کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون سازی کرتی ہے، مگر دوسری جانب ضلعی، تحصیل اور یونین سطح پر موجود ادارے ایسے واقعات پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد کو متزلزل کرتا ہے بلکہ آئندہ کے لیے خطرناک مثال بھی بن سکتا ہے۔

شہریوں نے ڈی پی او بہاولپور، ڈپٹی کمشنر بہاولپور، اسسٹنٹ کمشنر احمدپور شرقیہ، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو اور وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور محمد اسامہ گھلو کے نکاح میں ملوث تمام افراد، جن میں والدین، نکاح خواں، گواہان اور تقریب کے سہولت کار شامل ہیں، ان سب کے خلاف فوری اور موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ قانون کی بالا دستی ثابت ہو اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔

یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے لیے محض ایک کم عمر لڑکے کا نکاح نہیں بلکہ ایک ایسا سوال ہے جو ریاستی ذمہ داری، قانونی نفاذ اور اجتماعی ضمیر کی بیداری پر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اگر ایسے واقعات پر بھی خاموشی اختیار کی گئی تو یہ طرز عمل آئندہ کئی بچوں کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کو صرف کتابوں کی زینت بنانے کے بجائے اسے عملی شکل دی جائے اور ان افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے جو کمزور بچوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

Shares: