باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے کثرت رائے سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا بل2020 مسترد کردیا
بل مسلم لیگ ن کے رکن سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کیا تھا، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، مرضی سے مذہب کی تبدیلی پر کوئی قدغن نہیں ہے، نصاب تعلیم سے ظاہر ہونا چاہیے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ہمارا آئین ہماری قانون سازی سے مسخ نہیں ہونا چاہیے،اس معاملےکو سینیٹ کی اقلیتوں کے حقوق پر قائم کمیٹی میں زیربحث لایا جاسکتا ہے،
قائمہ کمیٹی نے مسلم خاندانی قوانین ترمیمی بل 2020 کو بھی کثرت رائے سے مسترد کردیا،مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ قوانین موجود ہیں، اس قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے،قائمہ کمیٹی نے بل پیش کنندہ رخسانہ زبیری کی غیرموجودگی میں ہی بل پر فیصلہ کرلیا
سینیٹر حافظ عبدالکریم نے کہا کہ شادی کو آسان بنایا جانا چاہیے، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو غور کیلئے بھجوایا گیا ہے،وزارت مذہبی امور، وزارت انسانی حقوق اور وزارت قانون نے بھی بل کی مخالفت کردی ،نمائندہ وزارت قانون کا کہنا تھا کہ خاندانی قوانین پر قائم عدالتوں پر پہلے ہی کیسز کا بہت دباؤ ہے، قانون سازی کے بعد الگ عدالتیں قائم کرنا ہوں گی،
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ایجاب و قبول کا نظام موجود ہے نکاح خواں اور کونسل بھی موجود ہے، سینیٹر حافظ عبدالکریم نے کہا کہ ایسے قوانین انسانی حقوق کے نام پر این جی اوز لاتی ہیں، شادی کو مشکل بنایا جارہا ہے اور بے راہ روی عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،
واضح رہے کہ سینیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا گیا تھا، مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ کےاجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا بل میں کہا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت اورتوہین آمیزمواد تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہوگا.
مسلم لیگ ن کے سینیٹر محمد جاوید عباسی کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ کس بھی فرد کی جانب سے کسی بھی اقلیتی شہری کی جبری مذہب تبدیلی پر متاثرہ شخص کو حکومت تحفظ اور معاونت فراہم کرے گی اور ایسا کروانے والے کو سات سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔مجوزہ بل کے تحت بین المذاہب جبری شادی پر ممانعت ہو گی اور کم عمر مذہبی اقلیت کی بین المذاہب شادی کو جبری شادی تصور کیا جائے گا اور ثابت ہو جانے پر بین المزاہب جبری شادی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔
بل کے مطابق جبری بین الا مذہب شادی کروانے والے کو 10 سال تک سزا، پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ کم عمر مذہبی اقلیت کی شادی کروانے والے کو 14 سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے جرم کے مرتکب کو تین سال سزا، 50 ہزار جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کرنے والے کو ایک سال سزا، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔
حکومت مذہبی اقلیتوں کے مذہبی اثاثے کا تحفظ کرے گی۔ اقلیتوں کے مذہبی اثاثوں کو نقصان پہچانے والے کو سات سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تمام جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت نہیں کی گئی جس کے بعد بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا، آج قائمہ کمیٹی نے بل مسترد کر دیا .