کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی 20 دن کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے عارف علوی کو تین مختلف مقدمات میں ضمانت دی اور انہیں 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران عارف علوی کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر کے خلاف درج مقدمات کی نوعیت سنگین ہے اور ان کے مؤکل پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وکیل نے مزید بتایا کہ عارف علوی کے خلاف مختلف دہشت گردی ایکٹ اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ مقدمات میانوالی، ٹیکسلا اور راولپنڈی میں درج کیے گئے ہیں۔وکیل کا کہنا تھا کہ سابق صدر کی گرفتاری سے متعلق پولیس کی کارروائی غیر قانونی ہے اور اس کا مقصد انہیں سیاسی طور پر نشانہ بنانا ہے۔ اس لیے درخواست کی گئی کہ عارف علوی کو 20 دن کے لیے حفاظتی ضمانت دی جائے تاکہ وہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کر سکیں اور اپنے خلاف درج مقدمات کا قانونی دفاع کر سکیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے 20 دن کی حفاظتی ضمانت دینے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی سندھ پولیس کو ہدایت کی کہ وہ عارف علوی کی گرفتاری سے گریز کرے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ عارف علوی کا نام نامعلوم ایف آئی آرز میں شامل کرنے سے روکا جائے۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اس کیس کی مزید سماعت کے لیے معاملہ آئینی بینچ کو بھیجا جا رہا ہے، جہاں مقدمات کی تفصیلات اور دیگر قانونی معاملات پر غور کیا جائے گا۔
سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سندھ ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن کا انہیں خود بھی علم نہیں۔ ہ یہ تمام مقدمات جھوٹے ہیں اور یہ ایف آئی آرز محض گرفتار کرنے کے لیے درج کی گئی ہیں۔عارف علوی نے کہا، "مقدمات نہ جانے کہاں کہاں درج کیے گئے ہیں، جن کا مجھے نام بھی معلوم نہیں، اور سب جانتے ہیں کہ یہ جھوٹی ایف آئی آرز ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ایک دوست جن کا حال ہی میں آپریشن ہوا ہے اور جو اس وقت امریکا میں ہیں، ان کا نام بھی ان ایف آئی آرز میں شامل کیا گیا ہے، جو کہ مزید مضحکہ خیز ہے۔
جب صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا انہیں گرفتاری کا خدشہ ہے تو سابق صدر نے کہا، "ایف آئی آرز تو اسی لیے ہوتی ہیں تاکہ گرفتاری کی جا سکے۔”عارف علوی نے اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ واقعات پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ "جو قوم کی رائے ہے وہ میری رائے ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "لوگوں کو مارا گیا ہے، لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ گولی نہیں چلی۔ کراچی میں تو چار میل دور گولی چلتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ میرے گھر میں جا کر گولی لگی ہے۔”
سابق صدر نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "جھوٹ بھی ایسا بولنا چاہیے جو چل سکے، لیکن ہلاکتوں کو چھپایا جا رہا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے اور تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے۔ "اگر حکومت پی ٹی آئی کو تحقیقات کا اختیار دے دے تو ہم تحقیقات کر کے حقیقت عوام کے سامنے لے آئیں گے۔”عارف علوی نے مزید کہا کہ "تحقیقات کرنا تو سرکار کا کام ہے، لیکن اگر سرکار تحقیقات کرنے کا موقع دے تو ہم اسے پورا کر سکتے ہیں۔” انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات میں مکمل شفافیت دکھائے اور سچائی کو سامنے لائے۔
اس موقع پر عارف علوی کے خلاف تین مقدمات میں 20 دن کے لیے حفاظتی ضمانت بھی منظور ہو گئی ہے، جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی قانونی لڑائی لڑیں گے اور سچ کو سامنے لانے کی پوری کوشش کریں گے۔








