آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، بحث کے بعد فیصلہ محفوظ، کب سنایا جائیگا؟
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابقسپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔عدالت مختصر فیصلہ آج سنائے گی چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سبراہی میں 3 رکنی بینج آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا، جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتا تو پنشن بھی نہیں مل سکتی۔
وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کر دی، کیا آرمی چیف کا عہدہ آج خالی ہے، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے، آپ ادھر ادھر گھومتے رہے ہم نے کسی کو ایڈوائس نہیں کرنا، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا مطمئن کرنا ہوگا اب ہونیوالی تعیناتی درست کیسے ہے ؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پیش کی گئی سمری میں تنخواہ اور مراعات کا ذکر نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا سمری میں اگر خلا رہ گیا ہے تو اسے بہتر کریں گے، بھارتی میڈیا نے سارے معاملے کوغلط انداز میں پیش کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیئے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا رکھی ہے، نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیئے جس کا سب کو علم ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 3سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ،اتنے بڑے آفس کی تعیناتی ہورہی ہے قواعد پرعمل کرنا ہوگا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سمری میں 3 سال کا لفظ لکھا ہے،اب ہرکوئی مستقبل میں ایسا ہی لکھے گا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے جو سمریاں جاری کی گئی تھیں ان میں مدت ملازمت لکھی ہوتی تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے معاملے پرکل آپ واضح نہیں تھے؟
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے پرابہام دور کرنے کا فورم کون سا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ابہام دور کرنے کا فورم وفاقی حکومت ہے،اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہو گا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا کر رکھی ہے،آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ شخص نہ پڑھے،آئین کی کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے،اسی کتاب سے ہم مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی کتاب ملک کیلئےبائبل کی حیثیت رکھتی ہے،سمری میں تنخواہ،مراعات اورمدت ملازمت واضح کردیں گے،
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا،کوئی دیکھ نہیں رہاکہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے،کام کس قانون کے تحت ہو رہا ہے،اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے،آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے،آپ نے پہلی بارکوشش کی ہے کہ آئین پرواپس آئیں،اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے،سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے،ہم کبھی بھی مشکل میں نہیں رہے،ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں،آرٹیکل 243کےتحت جوسمری آپ نے بنائی ہے اس میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا،چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں 5th جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے،آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے پاس الجہاد ٹرسٹ کی مثال موجود ہے،اس کیس میں اس کا حوالہ دینا ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہترکوئی فورم نہیں جو نظام کو ٹھیک کرسکے،واضح ہونا چاہیے جنرل کو پنشن ملتی ہے یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں نظر آتی ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی قانون بنا کرآئیں،جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش کررہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں،قانون بنانے کیلئے3 ماہ کا وقت چاہیے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،عدالت کاکندھا استعمال نہ کریں آئندہ بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہو گا،آرٹیکل 243میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں،3سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانونی نہیں،عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی،لگتا ہے تعیناتی کےوقت حکومت نے آرٹیکل 243 پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا،جو دستاویزات صبح منگوائی تھیں وہ آئی ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ایچ کیو میں کہہ دیا ہے ،کچھ دیر میں آجائیں گی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی بھی نہیں آتا پہلی بار ریاض حنیف راہی آیا ہے اس کوچھوڑیں گے نہیں،سب کہتے ہیں عدالت ازخود نوٹس لے
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا تین ماہ میں قوانین تیار کر لیں گے،اگر 3 ماہ میں قوانین تیار ہوگئے تو پھر آرمی چیف کو 3 ماہ کی توسیع مل جائے گی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اپنے فیصلے میں مدت کا تعین نہ کریں وہ ہم کرلیں گے،قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے
جنرل (ر)کیانی اورراحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا گیا،چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل (ر)کیانی کےنوٹیفکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹیفکیشن سے پہلے سمری تیار کی جاتی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹیفکیشن تو وہ دستاویز ہوتی ہے جو غلطیوں سے پاک ہونی چاہیے،جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں،آئین اورقانون سب سے مقدم ہے،گزشتہ 3 آرمی چیفس میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں،اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے،آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں،پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا،کہہ دیا گیا کہ تینوں ججز سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں،آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے،جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں،جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پہلے تو کسی کو ایک سال کسی کو دو سال کی توسیع دی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے،عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی،آرمی چیف کے حوالے سے تیار کی گئی سمری میں ہمارا ذکر بالکل نہ کریں،یہ کام وزارت دفاع کا ہے،وزارت دفاع کی جانب سے جو سمری آئی ہے اس میں سپریم کورٹ کا ذکر ہے،ہمارا ان سمریوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے