عمران خان کی گرفتاری
سابق وزیراعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت پیشی کے دوران گرفتار کر لیا گیا، عمران خان پر انکی حکومت کے عرصے کے دوران 2018 سے 2022 تک سرکاری تحائف کی فروخت کرنے کا الزام تھا، عمران خان کی گرفتاری غیر متوقع نہیں تھی تا ہم اسکے بعد تباہی دیکھنے کو ملی، تحریک انصاف کے کارکنان اور حامی سڑکوں پر نکلے ، دو چیزیں سامنے آئیں، ایک ، تحریک انصاف کی اول درجے اور دوم درجے کی قیادت اور رہنما عمران خان کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر احتجاج میں نظر نہیں آئے تھے، دوم،نام نہاد برگر کراؤڈ بھی اس احتجاج میں نظر نہیں آیا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو احتجاج ہوا اس میں جوش و جزبہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا،
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کے کئی شہروں میں ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت نے موبائل فون نیٹ ورک کو بند کر دیا تا کہ رابطے نہ ہو سکیں، کئی شہروں میں ٹی وی کی نشریات بھی معطل کی گئیں، اسکے بعد آڈیو لیکس سامنے آنا شروع ہو گئیں، آڈیو لیکس میں ہونیوالی گفتگو سن کر یہ طے کرنا مشکل نہیں کہ اس ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی کون ہدایات دیتا رہا، آڈیو لیک کی گفتگو میں لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کی طرف بڑھنے کی ہدایات دی گئیں، تحریک انصاف کے رہنما، سینیٹر اعجاز چودھری اور انکے بیٹے علی چودھری کی مبینہ آڈیو لیک ہوئی ، ڈاکٹر یاسمین راشد اور اعجاز منہاس کی بھی آڈیو لیک ہوئی، دو اور بھی آڈیوز سامنے آئیں، جن میں ملک کے مفادات کے خلاف منصوبہ بندی کے ثبوت ملے،
اختلافات سیاست کا فطری حصہ ہیں تا ہم اختلافات کو ختم کرنے اور آگے بڑھنے کا واحد حل بات چیت، مزاکرات ہیں ، لیکن بدقسمتی سے عمران خان کسی بھی قسم کی بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھے، اداروں، افراد اور حتیٰ کہ اقوام (جیسے امریکہ) پر الزام لگانے کا ان کا رجحان اس بات کی مثال ہے کہ سیاست میں کیا نہیں کرنا چاہیے۔ ڈپلومیسی ایک فن ہے، اور اگر کوئی پارٹی رہنما اپنی پارٹی اور اپنی قوم کے مفادات کو ملکی سطح پر محفوظ رکھنے کے لیے سفارت کاری کا استعمال نہیں کر سکتا تو عالمی سطح پر پاکستان کے مفادات کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت کے حوالہ سے ان پر کوئی بھی سوال اٹھا سکتا ہے
دنیا بھر کے رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور انہیں اکثر قید یا طویل مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن وہ اپنے کارکنان کو عوامی املاک کو تباہ کرنے یا ریاست کے ساتھ تنازعات میں ملوث ہونے پر اکساتے نہیں قیادت خود ایسے واقعات سے دور رہتی ہے ،عمران خان نیب کے پاس جسمانی ریمانڈ پر ہیں، انکے ریمانڈ میں توسیع ہو سکتی ہے یا انہیں جوڈیشل ریمانڈ میں جیل بھجوایا جا سکتا ہے، جس کے بعد انکئ ضمانت کی درخواست بھی دائر کی جا سکتی ہے، تحریک انصاف کے رہنما فواد کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، مزید کئی گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں،ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے اندر اقتدار کی کشمکش ناگزیر ہو جاتی ہے ،کیونکہ پارٹی طے کرتی ہے کہ اب پارٹی قیادت کون کرے گا، اب حساب کا وقت آ گیا ہے