اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس سماعت کیلئے مقر ر کردیا گیا ۔
باغی ٹی وی: رپورٹ کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرے گا،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ کل جمعہ کے روز سماعت کرے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہوں گےجسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہیں۔
ارشد شریف اگست 2022 میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر 2022 میں قتل کردیا گیا تھا۔
ہائی کورٹس خودمختار ادارے،معاملات میں مداخلت مناسب نہیں،چیف جسٹس
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی،اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔
میرے برعکس ایمن خان کو ہمیشہ محبت اور احترام ملا ہے،منال خان
کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیاپولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔
میرے برعکس ایمن خان کو ہمیشہ محبت اور احترام ملا ہے،منال خان
لیکن بعدازاں پاکستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی موت منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا قتل تھاارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے کینیا پولیس یونٹ کے خلاف وہاں کی مقامی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا کینیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف نیروبی کے باہر پولیس چیک پوسٹ پر نہیں رکے تھے لیکن ان کے اہل خانہ اور پاکستانی تفتیش کاروں نے اس مؤ قف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا تھا۔
شریف اللّٰہ کو کس قانون کے تحت امریکا کے سپرد کیا گیا،وزارت قانون بتا سکتا، ترجمان دفترخارجہ