اے پیغمبرﷺ! تیری عمر مقدس کے ہر لمحہ حیات پہ سلام
تحریر: ظفر اقبال ظفر
حضورﷺکی محبت ایسا جذبہ ہے کہ میرے جیسا جھوٹا بندہ بھی اگر ترجمانی کرے تو اس سے سچی عقیدت جنم لیتی ہے۔ مگر میں اس سچی عقیدت کا رُخ بھی سچی ذات کی جانب موڑنا چاہوں گا جو حقیقی حقدار ہیں۔

ادبِ محمدؑ کے ایمان افروز اعمال کرنے والوں میں سے ایک نام محمود غزنوی کا بھی ہے۔ ایک بار ان کے پاس ایران کا سفیر بیٹھا ہوا تھا۔ محمود غزنوی نے اپنے خادم کو آواز دی: "حسن!” اور حسن پانی کا لوٹا لے کر آ گیا۔ محمود غزنوی نے لوٹا پکڑا اور وضو کرنے چلے گئے۔ ایرانی سفیر نے حسن سے سوال کیا کہ محمود غزنوی نے تو فقط آپ کو آواز دی اور آپ فوراً پانی لے آئے، آپ کو کیسے علم ہوا کہ محمود کو وضو کی حاجت ہے؟ حسن نے جواب دیا: "میرا پورا نام محمد حسن ہے اور محمود غزنوی مجھے صرف ‘حسن’ تبھی بلاتے ہیں جب ان کا وضو نہیں ہوتا، کیونکہ وہ محمدؑ کا نام بغیر وضو کے کبھی نہیں لیتے۔”

اسی ادب کو حضرت فخرالدین سیالویؒ اپنے اشعار میں یوں بیان کرتے ہیں:

باب جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے
فخر جبریلؑ کو یوں کہتے ہوئے پایا گیا
اپنی پلکوں سے درِ یار پہ دستک دینا
اونچی آواز ہوئی تو عمر کا سرمایہ گیا

ہر مسلمان کے لیے اسمِ اعظم درود پاک ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں: "دنیا و آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔” اور سب سے قریب تو خود خدا ہے جو فرماتا ہے: "میں اور میرے فرشتے ہر وقت محمدؑ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی انؑ پر درود بھیجو۔”

عقل حیرت کی وادیوں میں بھٹکنے لگتی ہے جب سوچتے ہیں کہ خدا کسی کام میں اپنی کسی مخلوق کو شریک نہیں ٹھہراتا مگر درود پاک میں شرکت کی خود دعوت دیتا ہے۔ جو درود ہم بھیجتے ہیں اسے پہلے خدا سنتا ہے اور ہماری کمی بیشی کو دور فرما کر اپنے حبیبؑ کی شان کے مطابق بنا کر بارگاہِ محمدؑ میں روانہ فرماتا ہے، اور ساتھ ہی اس درود پاک کی وجہ سے ہمارے درجات بلند کرتا رہتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ درود والی زبانوں کی روحوں پر فیض کے ہر لمحے بڑھتے اضافے کا عمل ہی خدا کا درود ہے۔

تخلیقِ کائنات سے پہلے وجہ تخلیق کائنات کا نور پیدا فرما کر اپنے قربِ خاص میں رکھنے والا خدا جب قیامت قائم کرکے سب کچھ صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا تب بھی نورِ محمدؑ موجود ہوگا اور رب اس پر درود پڑھتا رہے گا۔ اپنے محبوب کی جدائی سے لمحہ بھر کو بھی محروم نہ ہونے والے رب سے جب موسیٰؑ نے پوچھا: "اے رب! تیرے قریب ہونے کا خاص طریقہ کیا ہے؟” تو رب نے فرمایا: "میرے محبوبؑ پر درود پڑھا کرو۔”

حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اسپین کے شہر اشبیلیہ میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ چھریاں، تلواریں اور نیزے بناتا مگر گفتگو نہ کرتا۔ گاہک کا سوال سن کر صرف جواب دیتا: "اللّٰہم صل علی محمد”۔ ہر وقت باوضو رہتا اور اسی ورد میں مصروف رہتا۔ یہاں تک کہ اس کا نام ہی "اللّٰہم صل علی محمد” مشہور ہو گیا۔ ابن عربیؒ کہتے ہیں کہ جب مجھے کوئی مشکل پیش آتی تو میں اس لوہار سے دعا کرواتا اور وہ دعا فوراً قبول ہو جاتی۔

کلرکہار کے قریب خوشحال کلاں گاؤں کے نوجوان کرشن لال جو ہندو تھے، خواب میں خود حضورؑ نے کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ ان کا نام غازی احمد رکھا گیا۔ پروفیسر احمد غازی درود پاک کی کثرت کرتے اور اپنی تنخواہ اپنے شاگردوں پر خرچ کر دیتے۔ ایک بار رسول پاکؑ نے دبئی کے ایک امیر شیخ کے خواب میں تشریف لا کر حکم دیا کہ "احمد غازی نے درود پاک کی کثرت بارش کی مانند کر دی ہے، اس کے پاس جا کر اسے ہمارے روضے پر لانے کا انتظام کرو۔”

درود پاک مسلمانوں کا دفاع بھی ہے اور طاقت بھی۔ ایک فرشتہ قیامت تک درود پڑھنے والوں کے درود کو بارگاہِ محمدؑ میں پہنچانے پر مقرر ہے۔ مگر اہلِ محبت کا درود خود حضورؑ سماعت فرماتے ہیں۔ یہی اہلِ محبت وہ خوش نصیب ہیں جو درود کی کثرت سے اس قدر توجہ حاصل کر لیتے ہیں کہ حضورؑ ان کا نام اپنے رجسٹر میں درج فرما لیتے ہیں۔

گجرات کے خواجہ گوہر الدینؒ نے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی، مگر درود پاک کی برکت سے علمِ لدنی کے ایسے درجے پر فائز ہوئے کہ بڑے بڑے علماء مسائل میں آپ سے رجوع کرتے۔ ایک دن کسی عالم نے حدیث کے صفحے میں جھوٹ ملا کر پرکھا، تو آپ نے آنکھیں بند کرکے عرض کیا: "یہ حضورؑ کا فرمان نہیں، یہ جھوٹ ہے۔”

مولانا جلال الدین سیوطیؒ کو بیداری میں حضورؑ سے ملاقات کا شرف حاصل تھا۔ وہ فرماتے ہیں: "جب مجھے کوئی بات سمجھ نہ آتی تو میں حضورؑ سے دریافت کر کے لکھ لیتا تھا۔”

صوفی محمد افضل فقیرؒ درود کی کثرت کی بدولت ایسے مقام پر فائز ہوئے کہ لمحوں میں زمین کے کسی بھی حصے پر پہنچ جاتے تھے۔

حضورؑ اپنی ظاہری حیات میں جیسے صحابہ کرامؓ کو نوازتے تھے، وہ سلسلہ روزِ حشر تک جاری و ساری رہے گا۔ ہر عبادت درود کے پروں سے ہی پرواز کرتی ہے۔ قربِ مصطفیؑ ہی قربِ خدا ہے۔

حضرت موسیٰؑ کے دور میں ایک شخص نے دو سو سال رب کی نافرمانی کی۔ جب وہ مرا تو لوگوں نے اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ مگر اللہ نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی: "جاؤ میرے دوست کو غسل دو، کفن دو اور تدفین کرو۔” موسیٰؑ نے حیرت سے پوچھا: "یا رب! یہ تیرا دوست کیسے بنا؟” اللہ نے فرمایا: "جب یہ انجیل پڑھتا تھا تو جہاں میرے محمدؑ کا نام آتا، یہ اسے چومتا تھا۔”

درود پاک احسانی کیفیت میں پڑھنا چاہیے، یوں کہ گویا آپؑ کو دیکھ رہے ہیں یا اس یقین سے کہ وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ بارگاہِ خداوندی میں محبتِ رسولؑ کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں۔ عبادت تو عبادت، وجودِ مومن بھی قبول نہیں۔

Shares: