آرزو راجہ کیس: پنجاب کے صوبائی وزیر انسانی حقوق سندھ حکومت پر برس پڑے

0
39

کراچی میں 13 سالہ کر سچین بچی کے اسلام قبول کرنے کے بعد 44 سالہ شخص سے نکاح کرنے کئے کیس میں پنجاب کے صوبائی وزیر انسانی حقوق اعجاز عالم سندھ حکومت پر برس پڑے-

باغی ٹی وی : پنجاب کے صوبائی وزیر انسانی حقوق اعجاز عالم نے آرزو راجہ کیس کے حوالے سے باغی ٹی وی کے ساتھ گفگتو کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں سب سے بڑی وائلیشن سندھ حکومت سے ہوئی جہاں پر کم عمر میں شادی کا ایکٹ 2103 میں منظور ہوا لیکن سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ایکٹ پر 7 سال سے رولز ایمڈ ریگولیشن نہیں بن سکے –

انہوں نے کہا کہ 18 سال سے کم بچی کی شادی اور پھر اس کے بعد اہم بات یہ ہے کہ سندھ پولیس نے اس ایکٹ کے رول کو ہوا میں اڑا دیا حالانکہ وہاں 18 سال سے کم عمر کی بچی کی شادی نہیں ہو سکتی لیکن انہوں نے 13 سا ل کی بچی کی شادی کی اور پولیس نے ب فارم جوکہ نادرہ کی یہ ہماری شناخت ہے اور اگر آپ شناختی کارڈ اور ب فارم کو ریجیکٹ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پاکستان کے اداروں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں-

پنجاب کے صوبائی وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ سندھ کی پولیس نے یہ کیا کہ بجائے وہ ان کو تحفظ دیتے انہوں نے 13 سال کی بچی اور نکاح خوان نے اس بچی کا نکاح کیا پہلے بھی اسی نکاح خوان نے نہیا نامی بچی کا اسی طرح غلط نکاح کیا جس کی وجہ سے عدالت نے اس نکاح خان کے گرفتاری کے وارنٹ نکالے اس طرح انہوں نے دوسری مرتبہ یہ وائلیشن کی ہے-

اعجاز عالم نے کہا کہ 13 اکتوبر سے بچی کے ساتھ یہ ہوا تو سندھ حکومت کوچاہیے تھا کہ اپنا ردعمل دیتی لیکن اس واقعے کے 15 دن کے بعد ان کی پارٹی کے چئیرمین نے ٹوئٹ میں رد عمل دیا اور اس میں وہ ٹوئٹ کیا بھی اپنی ہی حکومت کے خلاف ان کی حکومت ہی نے تو یہ کام کیا ہے-

صوبائی وزیر نے کہا کہ جب پنجاب میں زیبنب کیس ہوا تھا تو مراد علی شاہ پنجاب میں آئے تھے اور کہا تھا کہ ہم وہاں پر سندھ کے ہر ڈسٹرکٹ میں پروٹیکشن شیلٹر بنائیں گے جہاں پر ایسی بچیوں اور بچوں کو رکھا جائے لیکن ویاں پر ابھی تک پچھلے 5 سال سے 10 بائے 10 کا ایک کمرہ نہیں بنا سکے-

اعجاز عالم نے مزید کہا کہ ابھی اگر گورنمنٹ نے ایک بازیابی کی ہے تو ایک شیلٹر روم میں بھیجا دارالامان میں کیا اگر اس طرح کے شیلٹر روم ہوتے تو اب اگر آرزو کو ریکور کرنے کے بعد ری ایپلیکیشن کے بھیجا جاتا ہے تو اسے بلاول ہاؤس میں تو نہیں بھیجیں گے آپ کے پاس اس طرح کے سینٹر ہوں گے تو اس کو وہاں بھیجا جائے گا-

پسند کی شادی کرنے والی آرزو راجہ کا بیان سن کر عدالت نے کیا حکم دے دیا؟

پنجاب کے صوبائی وزیر انسانی حقوق اعجاز عالم نے عدالت کی اس کیس میں کاگردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ معزز عدالت نے آج کی سنائی میں آرزو راجہ کا بیان لیا ہے اور اس کی میڈیگل ایگزامین کے لئے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بنا دیا ہے تو ہم ابھی تک تو مطمن ہیں معزز عدالت کورٹ کے کہ وہ کس طرح یہ کورٹ سندھ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے تو ہم مطمن ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح یہ چھوٹی عمر میں شادی کو دیکھتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کی زبردست قسم کی پروٹیکشن ملے-

واضح رہے کہ عدالت نے آرزو راجہ نے عدالت میں بیان میں کہا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے نکاح کیا ہے اور اسے اس کے شوہر کے ساتھ رہنے دیا جائے جائے جس پر عدالت نے آرزو راجہ کی عمر کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آرزو کو لیڈی پولیس کی تحویل میں طبی معائنہ کیلئے لے جایا جائے،عدالت نے سیکرٹری ہیلتھ کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیدیا،کیس کی مزید سماعت9 نومبر تک ملتوی کردی گئی ۔عمر کے تعین تک درخواست گزار شیلٹر ہوم میں رہیں گی

آرزو اغوا یا قبول اسلام معمہ الجھ گیا لاہور احتجاج میں کر دی بڑی ڈیمانڈ

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے سندھ حکومت آرزو راجہ کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔

بلاول نے کہا کہ آرزو راجہ کیس میں اگر معزز عدالت کو شبہات ہیں تو انہیں دور کیا جائے گا، سندھ حکومت اپنے دائرہ کار میں انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کم عمری میں شادی سے متعلق قانون پر عمل درآمد کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے شواہد بتارہے ہیں کہ آرزو راجہ کم عمر ہے، اس کی شادی اور مذہب کی تبدیلی جبری طور پر کرائی گئی ہے، یہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کے کیس میں پولیس کو آرزو فاطمہ کے شوہر علی اظہر اور اس کے اہل خانہ کی گرفتار سے روک دیا۔

پسند کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کیس میں عدالت کا بڑا حکم

درخواست گزار آرزو نے مؤقف اختیا کیا تھا کہ ‘میرا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا مگر بعد میں اسلام قبول کرلیا اور نام آرزو فاطمہ رکھا، میں نے اپنے گھر والواں کو بھی اسلام قبول کرنے کا کہا مگر انہوں نے انکار کردیا جبکہ میں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے-

آرزو نے بتایا کہ اپنی مرضی سے علی اظہر سے پسند کی شادی کی ہے، پسند کی شادی کرنے پر میرے والد نے میرے شوہر کی پوری فیملی کے خلاف مقدمہ درج کرادیا ہے مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

Leave a reply