اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا
اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا
اسلام آبادہائیکورٹ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنا دیا
اسلام آبادہائیکورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پر سماعت کی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ ای سی ایل میں اس لیے رکھا کہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے، سارا ریکارڈ دیکھا اس وقت اسد درانی کیخلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں،ہر عام شہری کی طرح تھری سٹار ریٹائرڈ جنرل کے بھی حقوق ہیں۔اسد درانی کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں اب وہ ایک عام شہری ہیں اور آزاد گھومنا ان کا حق ہے،
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ کیاوفاقی حکومت کے پاس کھلی چھوٹ ہے کہ کسی کو بھی ای سی ایل میں ڈال دے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزارت دفاع کے نمائندے کونوٹس کرکے ان سے جواب طلب کرلیاجائے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کسی کوبھی بلانے کی کوئی ضرورت نہیں، ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کیخلاف کوئی فریش انکوائری نہیں، ،عدالت نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔
جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست دائر کی تھی جبکہ وزارت دفاع نے مخالفت کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
وزارت دفاع کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل کروائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی 2008 سے دشمن عناصر بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے رابطوں میں رہے۔ ان کا نام ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ایگزٹ کنٹرول لسٹ( ای سی ایل) میں شامل کیا گیا۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی 32 سال پاکستان آرمی کا حصہ رہے اور اہم و حساس عہدوں پر تعینات رہے۔ اسد درانی کے خلاف انکوائری حتمی مرحلے میں ہے اور اس مرحلے پر ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔
،اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے کیس پر سماعت،جسٹس محسن کیانی نے سماعت سے کی معذرت
داخل کردہ جواب میں کہا گیا ہے کہ اسد درانی نے 12 اور 13 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر جس رائے کا اظہار کیا اسے بھی کسی محب وطن شہری نے اچھا نہیں سمجھا۔ سابق سربراہ آئی ایس آئی نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھی۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کتاب کا سیکیورٹی لحاظ سے جائزہ لیا گیا۔ انکوائری بورڈ کے مطابق کتاب کا مواد پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے