سیاسی تاریخ میں بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں جو محض افراد نہیں رہتے، بلکہ ایک علامت بن جاتے ہیں،روشنی، جدوجہد اور تسلسل کی علامت۔ پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید بھی ایسی ہی شخصیت تھیں جن کے وقار، اندازِ گفتگو، مسکراہٹ اور عوامی محبت نے نسلوں کو متاثر کیا۔آج جب آصفہ بھٹو کو دیکھا جاتا ہے تو اُن میں اپنی والدہ کی جھلک دکھائی دیتی ہےوہی ٹھہراؤ، وہی نرمی، اور وہی عوام سے قریبی تعلق کا احساس،بینظیر بھٹو کی وراثت صرف سیاسی نہیں تھی؛ وہ امید، جدوجہد اور ایک بہتر پاکستان کے خواب کی وراثت تھی۔ آصفہ بھٹو ان ہی خوابوں کے تسلسل کو اپنے انداز میں آگے بڑھاتی نظر آتی ہیں۔
سیاسی میدان میں اُن کی موجودگی نسبتاً نئی سہی، مگر سماجی سطح پر وہ عرصہ دراز سے سرگرم ہیں،بالخصوص صحت، انسانی حقوق اور فلاحی کاموں میں اُن کی دلچسپی نمایاں رہی ہے۔ پولیو کے خاتمے کی مہم میں ان کی سرگرم شمولیت انہیں نئی نسل میں ایک ایسی آواز بنا دیتی ہے جو خدمت اور ذمہ داری کو سیاست سے پہلے رکھتی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو تک، عوامی رابطہ اس خاندان کی شناخت رہا ہے۔آصفہ بھٹو کی عوامی تقریبات، دورے اور سوشل پالیسی سے جڑے موضوعات پر توجہ بھی اسی روایت کا تسلسل محسوس ہوتی ہے۔ اُن کے انداز میں ایک سادگی اور باوقار سنجیدگی ہے جسے دیکھ کر لوگ اکثر کہتے ہیں کہ “یہ بینظیر کی مسکراہٹ ہے”۔
آصفہ بھٹو نہ صرف ایک سیاسی خانوادے کی نمائندہ ہیں بلکہ نئی نسل کے احساسات اور طرزِ فکر کی بھی عکاس ہیں۔ وہ جدید سیاسی بیانیے، سوشل میڈیا سے عوامی رابطے، خواتین کے حقوق اور نوجوانوں کے کردار جیسے موضوعات پر کھل کر بات کرتی ہیں۔یہی وہ پہلو ہے جو انہیں پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاست میں ایک ابھرتی ہوئی سماجی آواز بناتا ہے۔بینظیر بھٹو نے ہمیشہ کہا کہ وہ پاکستان کی بیٹی ہیں۔آصفہ بھٹو کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہ اپنی ماں کے نامکمل خوابوں کو اپنے طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں،چاہے وہ تعلیم کا فروغ ہو، صحت کے مسائل ہوں، یا کمزور طبقات کی آواز بننے کا معاملہ،ان کے لہجے میں وہی نرمی ہے، اور اُن کی گفتگو میں وہی احترام جو بینظیر کی شخصیت کا حصہ تھا۔
آصفہ بھٹو کا سفر ابھی طویل ہے، مگر اُن کی شخصیت میں موجود وہ وقار، مسکراہٹ اور عوام سے محبت انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔وہ نہ کسی کا نعم البدل ہیں، نہ کسی کے سائے میں چھپی ہوئی شخصیت،بلکہ ایک خود مختار، اعتماد سے بھرپور اور انسان دوست آواز جو اپنے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔وہ واقعی عکسِ بےنظیر کی طرح محسوس ہوتی ہیں،مگر اپنی شناخت کے ساتھ، اپنی روشنی کے ساتھ، اور اپنے عزم کے ساتھ۔








