آخر یہ لوگ ہیں کون؟—-از–برہم مروت
آج کل پوری تندہی سے کوشش ہوتی ہے کہ ایسے موضوع پر کچھ نہ لکھوں کہ جس سے کسی پر طنز کرنے، کسی سے نفرت کے اظہار کا شائبہ ہو یا اس موضوع سے ہٹ کر بات کو کوئی اور رُخ دے کر فضول کا بحث و مباحثہ شروع ہو جائے لیکن طبیعت کچھ ایسی ہے کہ چند ایسے موضوعات یا باتوں پر اگر اپنے احساسات کو بیان نہ کروں تو بڑی تکلیف میں ہوتا ہے اسلئے آج پھر لکھنے بیٹھا ہوں۔
کچھ عرصے سے دیکھ اور پڑھ رہا ہوں کہ جیسے ہی کوئی ایسی تحریر یا ویڈیو کوئی لگاتا ہے جس میں ہمارے ملک پاکستان کی بھلائی یا خیر کا پہلو اُجاگر ہوا ہوتا ہے تو ایک "مخصوص سوچ” کے نمائندے فوراً سے پیش تر آن ٹپکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اُس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے جو حاملِ پوسٹ نے نشاندہی کی ہوتی ہے لیکن جب سمجھ جاتے ہیں کہ واقعی یہ بات تو سچ ہے تو پھر نئے ہتھیار استعمال کر کے کہتے ہیں کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ سچ ہے (جیسے بہت بڑا احسان کر رہے ہوں) لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب مکھی کی طرح ہاتھ ملتے ہوئے پورے جسم کو چھوڑ کر واپس پھوڑے پر ہی آ بیٹھتے ہیں اور اگر اس کے بعد بھی کوئی ایسوں کو مطمئن بھی کر لیتا ہے تو ایسے اطمینان سے اُن کی اناؤں کو ضرب لگ جاتی ہے جس سے فرسٹریشن کا شکار ہو کر یہی لوگ پھر ہفوات بکنے پر آ جاتے ہیں۔
یہی لوگ ایک اور کام بڑھے شد و مد کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہر اس بات، موضوع یا واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جس میں ان کے اپنے ہی ملک کی بدنامی ہو لیکن ہر ایسا دن یا موقع جس سے ہمارے ملک کی عزت بڑھتی ہے یا بین الاقوامی سطح پر ایک اچھا پیغام جاتا ہے اس میں سے یہ کیڑے نکالتے ہیں، اپنی پسندیدہ جو ان کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہو تاریخ سے دلائل لے کر آتے ہیں کیونکہ اس کے علاؤہ تاریخ ان کے نزدیک جھوٹی ہوتی ہے اور قارئین کو تذبذب میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی انا کی اس تسکین کو سچ کا نام دیتے ہیں لیکن اگر کسی نے ان کے اس "سچ” کی تردید میں واقعی سچ لکھ دیا تو وہ مطالعہ پاکستان کا مارا، پالشی، بنیاد پرست اور پتہ نہیں کیا کیا ہو جاتا ہے۔
ایسی سوچ رکھنے والوں کی ایک نشانی اور بھی ہے آپ اگر بھارت کا پاکستان کے خلاف کسی اقدام بارے کچھ لکھ دیں بیشک اس لکھنے کا سورس بھارت کا اپنا ہی میڈیا یا بین الاقوامی اشاعتی اداریں ہوں تو یہ آناً فاناً اُس کے دفاع میں ٹپک پڑتے ہیں اور ساتھ میں اپنے ہی ملک کو بھی رگید ڈالتے ہیں اور اگر جواب آں غزل میں کسی نے اتنا تک لکھ دیا کہ بھارت کی بات ہو رہی ہے آپ کیوں تکلیف کی زحمت اُٹھا رہے ہیں؟ تو اپنا پُرانا رنڈی رونا شروع کر دیتے ہیں کہ "بس؟ آ گئے ناں غداری کا سرٹیفیکیٹ دینے یا سچ ہضم نہیں ہوا نا؟”
آخر ایسی سوچ کے مالک لوگ ہیں کون؟ ان کے ارادے کیا ہیں؟ یہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ احساسِ کمتری کے مارے ہیں یا محرومی کے؟ نفسیاتی مریض ہیں یا کسی غلط فہمی کے شکار؟ کچھ تو ہے یہ لوگ صرف اپنے ہی کہے کو "سچ” اور سب سے ذیادہ علم والے مانتے ہیں باقی ان کے نزدیک "جھوٹے” ہیں، لاعلم ہیں تاریخ وہی ہے جو ان کے نزدیک تاریخ ہے نہیں تو مطالعہ پاکستان ہے۔
اسی سوچ والے لوگ اتنا کچھ کہنے لکھنے اور سُنانے کے باجود رونا روتے ہیں کہ یہاں آزادیِ اظہار رائے پر پابندی ہے، مذہبی شدت پسندی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں لیکن اپنی شدت پسند رویوں کے قائل نہیں ہوتے اور پھر ساتھ میں کہتے اور لکھتے بھی ہیں کہ "ہمارا سچ کسی سے ہضم نہیں ہوتا” اللّٰہ تعالٰی تمہارا یہ سچ تمہیں پر پلٹ دے تاکہ معلوم تو ہو کہ واقعی میں آپ کتنے سچ کے قائل ہیں۔
اللّٰہ تعالٰی پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے بیشک وہ قصداً کرتے ہوں یا لاعلمی میں پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر آمین۔
آخر یہ لوگ ہیں کون
تحریر:
برہم مروت