خیبرپختونخوا کے سابق مشیر اجمل وزیر کا کہنا ہے کہ مجھے راستے سے ہٹانے کے لئے آڈیو لیک اسکینڈل کا منصوبہ بنایا گیا اس میں 20 ویں گریڈ کا افسر بھی شامل تھا-
باغی ٹی وی : مبینہ آڈیو لیک کے شکارخیبرپختونخوا کے سابق مشیر اطلاعات نے دو سال بعد خاموشی توڑدی نجی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف ایڈیٹیڈ فیبریکیٹیڈ آڈیو کی سازش تیار کی گئی۔ مجھے راستے سے ہٹانے کے لئے آڈیو اسکینڈل کا منصوبہ بنایا گیا۔
شہباز، حمزہ کے اکاؤنٹ میں براہ راست پیسے جمع نہیں کرائے گئے،ایف آئی اے
اجمل وزیر نےالزام عائد کرتے ہوئے کہا ہےکہ سازش باہر کے یا چھوٹے لوگوں نے نہیں کی،گریڈ 20 کا افسر بھی سہولت کار تھا۔انکوائری 11 مہینے لٹکائی گئی،پھر اعلان ہوا کہ اجمل وزیر بے گناہ ہےان لوگوں نے جعلی آڈیو بنائی،میں اصلی ویڈیو،آڈیو اور دستاویز جلد ریلیز کروں گا مواد کا تعلق میری ذات سے ہے،جو ظلم زیادتی میرے ساتھ کی گئی۔
خیال رہے کہ اجمل وزیر کی ایک آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں وہ اشتہاری ایجنسی سے کمیشن کے معاملے پر بات کررہے تھے جس میں جی ایس ٹی اور ٹیکسز میں چھوٹ سے متعلق بات چیت کی گئی جس کے بعد وزیراعلیٰ کے پی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اجمل وزیر کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
سابق مشیر کیخلاف انکوائری میں ثابت نہیں ہوسکا تھاکہ آڈيو ٹيپ درست بھی ہے يا نہيں، انکوائری کميشن آڈيو ٹيپ کا اجمل وزير سے کوئی تعلق بھی ثابت نہ کرسکا تھا اور انہیں کلین چٹ ملی تھی۔
جاوید لطیف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے ریلیف نہ مل سک
اس وقت اجمل وزیر نے کہا تھا کہ میرے خلاف سازش ہوئی، سازشوں نے راستہ روکنے کے لیے گھٹیا طریقہ اپنایا۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کا قائل ہوں الزامات پر سامنا کروں گا۔ مختلف اجلاسوں اور بریفنگز کو ایڈٹ کرکے من گھڑت آڈیو تیار کرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ مبینہ آڈیو ٹیپ کو ایک جگہ سے کاٹ دوسرے سرے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ آڈیو کو ایڈٹ کرکے پیش کیا گیا ہے، جس بنیاد پر یہ آڈیو بنائی گئی ہے وہ اس اشہاری کمپنی کی فہرست ہے جو ٹی وی چینل کو ملنا تھا۔ اطلاعات کے رولز کے مطابق سٹیرنگ کمیٹی کا چیئرمین اطلاعات کا وزیر ہوتا ہے، سٹیرنگ کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے جس کی صدارت وزیر صحت نے کی تھی۔
سابق مشیر اطلاعات اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ جس معاملے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے میرا تعلق نہیں، اشتہار محکمہ صحت کا تھا۔ چیئرمین وزیر صحت ہوتا ہے۔ میں کمیٹی میں اعزازی ممبر تھا۔ فیصلے کا اختیار ہی نہیں تھا۔