اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
تحریر: سید شاہزیب شاہ
محبت ایک ایسا منفرد اور کمزور احساس ہے جو اس دنیا میں موجود کروڑوں لوگوں میں سے چند لوگوں کی زندگی میں دستک دیتا ہے۔ ویسے تو ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے احساس پیدا کر رکھا ہے جو ہر جاندار چیز کے لیے ہمدردی کے روپ میں محسوس کیا جاتا ہے، مگر محبت ایک ایسا احساس ہے کہ جب کوئی ہمارے معاشرے میں اسے سنتا ہے تو اُس کے ذہن میں ایک مختلف خیال پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہم لوگ بچپن سے بزرگوں سے، کتابوں کے مطالعے سے اور ماحول و معاشرے سے دیکھتے، سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ محبت وہ احساس ہے جو کسی کو کسی کی اجازت کے بغیر ہو جاتا ہے۔ جب کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو اُس محبوب کے علاوہ اُسے کچھ نظر نہیں آتا۔ دن ہو یا رات، خوشی ہو یا غم، آندھی ہو یا طوفان، اُسے اُس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک عاشق اپنے محبوب کے خیال و فکر میں مدہوش و مگن رہتا ہے، اُس کے لیے جانے کیسی کیسی اور بڑے سے بڑے مشکلات کو خوشی خوشی مول لے لیتا ہے اور اُس کو حاصل کرنے کی جستجو میں مصروف ہو جاتا ہے۔
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اُسے محبت نہیں کھلاتی۔ زندگی کے سفر میں جیسے محبت کا سفر ہوتا ہے، ویسے ہی نجی زندگی میں بھی اور بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو پہلے اپنے گھر سے تین چار سال کی عمر میں بہت کچھ گھر و خاندان کی دیکھی سُنی چیزیں اپنے دماغ میں سما لیتے ہیں اور پھر ہمیں سکول یا مدرسے میں دین و دنیا کی کامیابی کے لیے داخلہ دلوایا جاتا ہے۔ پھر جوانی کی عمر میں، آج کے دور میں، ہم کالج، یونیورسٹی میں بڑی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تاکہ ہم اپنی اس زندگی میں کچھ کر سکیں، کامیاب بن سکیں، دنیا کو کچھ کر کے دکھا سکیں، والدین کی محنت کا نتیجہ دیکھا سکیں۔ لیکن یہ زندگی ہے، اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم محبت کے سمندر میں ڈبکی لگاتے ہیں تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سمندر کا پانی کھارا ہے۔ محبت کے اس سفر میں بہت کچھ حاصل کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ عاشق کی زندگی صرف محبت پر نہیں گزرتی۔ عاشقی تب ٹھکانے لگتی ہے جب اُسے رشتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رشتے ناتے سنبھالنا ایک عاشق کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ محبت کرنے والا جب پریشانیوں، دکھ، تکلیفوں اور رکاوٹوں کو ذہنی طور پر دیکھتا اور محسوس کرتا ہے تو وہ بےبس، کمزور اور بےحال ہو جاتا ہے۔ اور سب سے زیادہ کمزور تب ہوتا ہے جب اُسے اپنے ذاتی رشتوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور یہاں سے عاشق کی ناکامی شروع ہوتی ہے۔ اور وہی بات ہے کہ عاشق ناکام ہی اچھے لگتے ہیں۔
لیکن یہ صرف منہ زبانی بات ہے۔ میری نظر میں عاشق کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ جب آج ہم محبت کی بات کرتے ہیں تو پنوں، مجنوں اور بھی بڑے بڑے نام کامیابی کے طور پر لیے جاتے ہیں۔ آج بھی جب کوئی نوجوان محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ میں ناکام ہوں یا مجھے ذاتی رشتوں یا پھر ناکامیوں کی وجہ سے کوئی مشکل درپیش ہے۔ نہیں بلکہ تم ناکام نہیں ہو، بلکہ تم محبت کر کے کامیاب ہو گئے ہو اور اس محبت سے تم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ حاصل کیا ہے اور سب سے زیادہ محبت کا سلیقہ سیکھا ہے، جو عظیم ہے۔ اگر آج بھی آپ کی خواہش ہے کہ محبوب کو حاصل کیا جائے تو پھر میں یہاں فیض احمد فیض کا لکھا ہوا شعر کہنا چاہوں گا:
"اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا”








