اور مکالمہ یتیم ہو گیا
تحریر:ریاض احمد احسان
یتیمی کا دُکھ جھیلنے والے حرف،لفظ،خیال اور شاعری کے سفیر پیر نصیر الدین نصیر کے اس کلام سے خاص محبت کرتے ہیں-
سنےکون قصہء دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ،وہ وفا شعار چلا گیا،
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے چاند کی ،جو تہہ مزار چلا گیا
وہ سخن شناس وہ دور بیں، وہ گدا نواز وہ مہ جبیں
وہ حسیں وہ بحر ِعلوم دیں، میرا تاجدار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدرداں
کہاں اب وہ شوق میں مستیاں کہ وہ پر وقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا دردِ دل وہ جو پوچھتا تھا غمِ دٙروں
وہ گدا نواز بچھڑ گیا ،وہ عطا شعار چلا گیا
بہیں کیوں نصیر نہ اشکِ غم ،رہے کیوں نہ لب پر میرے فغاں
ہمیں بےقرار وہ چھوڑ کر سر راہ گزار چلا گیا
وہ عہدِ نبوی ؐ کی کوئی روح تھی جسے جسم اِس مادیت پرست اور نفسانفسی کے دورِ قحط الرجال میں عطا ہوا بلاشبہ! وہ ایسی ہی بزرگ ہستی تھے جن کو قرآنِ حمید میں اللہ رب العزت نے اپنا دوست لکھوایا ہے۔ اس عہدِ کم نظر میں رسالت مآب ﷺ کا اسوۂ حسنہ کسی اُمتی کا زندگی کے سفر پر زاد راہ ہونا ریاضت نہیں عطا ہے کہ وہ جسے چاہے منتخب کر لے۔ ہمارے عہد کی یہی چلتی پھرتی حقیقی کرامتیں ہیں۔گفتگو ایسی کے توحید کی حدت سے سینوں میں آگ بھڑک اٹھے اور محمد عربی ﷺ کی محبت کا بحر بیکراں دل ودماغ کیلئے راحت کا سامان ہو۔ اُن کی تقریر طارق بن زیاد کی طرح گھروں کو دور اورجنت کو نزدیک کردیتی تھی اور اپنے موقف پر استدلال انہیں غزالی ء وقت بنا دیتا تھا۔ استاذ ایسے کہ علم و ابلاغ اُن کے ہاں پانی بھرتے دکھائی دیتے تھے اور سب سے بڑھ کر کردار وہ کہ دامن نچوڑتے توواقعی فرشتے بھی وضو کرتے ہوں۔اُن کی زندگی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی شریعت کی مجسم تصویر تھی۔ ایک ایسا باکمال ولی کامل جس پر اللہ کی توحید اور ختم نبوتﷺ پر کبھی کسی مصلحت یا مصالحت کا گمان بھی نہ گزرا ہو۔گفتار کی گھن گرج ایسے کہ جُز وقتی سورماؤں کی اوقات ہی کیا، کل وقتی سُپر پاوروں کی غلام گردشوں میں بھی غلام مشعلیں لئے بھاگتے دکھائی دیتے تھے کہ اِن محلات پر کوئی قہر نازل ہونے والا ہے۔ عمر بھر کلیجہ ء کفار میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔دنیا بھر کےشیاطین اُن کے خلاف سازشیں کرتے رہے لیکن جو جان کے بدلے آخرت کا سودا کرچکے ہوں وہ بھلا نرغہ ء ابلیسں میں کب آتے ہیں؟ وہ پاکستان کی دفاعی اور نظریاتی سرحدوں کے زبانی دعویدار نہیں تھے بلکہ انہیں نے اس راہ میں آنے والی ہر صعوبت کو خندہ پیشانی سے عطیہ ء خداوندی سمجھ کر قبول و منظور کیا۔وہ ایٹمی پاکستان کو مزید طاقتور ور دیکھنے کے تمنائی تھے۔وہ خدمت نفس کی بجائے خدمت انسانیت پر یقین رکھنے والے تھے-جہاں بازوں کی دنیا میں اُن کا کردار جانبازوں کا سا تھا-اُن کا عظیم احسان دائرہ انانیت میں رہنے والے سخت مزاج لوگوں کو دائرہ انسانیت میں داخل ہونے کی مسلسل دعوت دینا تھا-
میرے لیے اُنکی وفات کے غم سے نکلنا دشوار ہوتا جا رہا ہے- میری کیاحیثیت؟ کیا بساط بلکہ میری تو سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ ایام دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں سے تعزیت کے دن ہیں کہ اُن کے غم خوار کو لینے والے زمین و آسمان کے خالق کے حکم پر لینے آئے تھے اور لے گئے ۔ وہ لمحہ آن پہنچا تھا جس کے سامنے انکار کی جرات کسی کو کبھی نہیں ہوئی کہ یہی حقیقی خالقِ کائنات کا زمین پر چلتے پھرتے انسانوں کو آخری حکم ہوتا ہے اور جنہوں نے عمر ہی حصولِ رضائے الہی میں گزاری ہو وہ تو ایسی گھڑیوں کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی استاذِ محترم پروفیسر ڈاکٹرعبد الرحمان مکی رحمہ اللہ کے ساتھ ہوا کہ انہوں نے دوستوں کو بتا دیا کہ ”لینے والے آن پہنچے ہیں۔“ آج مظلوم کشمیریوں سے ہی نہیں بلکہ کشمیر سے بھی تعزیت کا دن ہے کہ وہ بزرگ ہستی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئی جس کا دل کشمیریوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتا تھا ٗجو غزہ کے مسلمانوں کے معاون و مددگار تھے ٗ وہ میانمارمیں بھارتی فوج کی پشت پناہی کے بعدبدھشوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کے نتیجہ میں ہونے والی ہجرت کے بعد بنگلہ دیش کے بارڈر پر ہزاروں بے گھر افراد کی کفالت کرنا قومی فریضہ سمجھتے تھے۔
اُن کی جہادی آواز ٗبرستے بارود اور مسمار ہوتی عمارتوں میں بھی اللہ کے دشمنوں کو للکار کراپنے ساتھیوں کا حوصلہ بلند کر رہی ہوتی تھی۔ پروفیسر عبد الرحمان مکی ایک شخصیت نہیں ایک عہد اور سوچ کا نام ہے۔اُنہوں نے جہاد پر مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے نئی نسل کو جہاد کی فضیلت ٗاہمیت ضرورت اور اللہ کے ہاں اُس کی مقبولیت کے روشن پہلو سے آشنا کروایا۔ وہ جہاد کو اقوام مخالف اور ظلم کاواحد علاج اورحل سمجھتے تھے اور اِس کیلئے اُن کی آواز پاکستان نہیں دنیا بھر میں سب سے طاقتور اورتوانا تھی۔ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت میں درویشانہ زندگی بسر کی اور اُن کی تدفین بادشاہوں کی طرح ہوئی کہ اُس رستے پر چلنے والوں کی دنیا اور آخرت جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہی ہوتا ہے۔ آج میں سوچ رہاہوں کہ کسی ایک شخص میں اتنی خوبیاں صرف اُس کی عطا ہی ہو سکتی ہیں-و ہ کبھی بنگلہ دیش نا منظورکی تحریک میں نطر آ رہے تھے تو کبھی مرزائیوں کے خلاف چلنے والی ختم نبوت کی تحریک میں پیش پیش تھے۔
انہوں نے 1977ء میں چلنے والی نظام مصظفیٰ کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔وہ جہاں عالمی سامراج کو عمر بھر للکارتے رہے وہیں پاکستان کے جغرافیے سے جڑے دشمنوں پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے آج لکھنا ہو گا کہ ہمت ٗ محنت ٗجرات ٗ انتھک جدو جہد اور حوصلوں کو یکجا کردیا جائے تو میرے ذہن میں ایک ہی نام آتا ہے جو جنابِ پروفیسرڈاکٹر حافظ عبدالرحمان مکی صاحب کا ہے ۔ وطنِ عزیز پاکستان میں اسلامیت، انسانیت،پاکستانیت،ادبیت اور قائد و اقبالیت کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان،دو قومی نظریہ،حرمت قرآن،حرمت رسول ﷺ ،سود سے پاک پاکستان،معاشی ترقی کرتا پاکستان،خود مختیار اور مستحکم پاکستان،ایٹمی پاکستان،مزائل ٹیکنالوجی اور فزکس کے میدان میں آگے بڑھتا پاکستان،امن دشمنوں کو شکست دیتا پاکستان،فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرتا اور مسلم امہ کی قیادت کرتا پاکستان انکے موضاعات ہوا کرتے-
1857ء کے بعد تاجدار برطانیہ کے تھنک ٹینک سے شروع ہو نے والی جہاد کے خلاف کمپین جب ہمارے عہد میں داخل ہوئی تو اسے عبد الرحمان مکی جیسی بزرگ ہستی کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے نئی نسل کو از سر نو اُن کے اجداد کا بھولا ہوا جہادی درس یاد دلایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اُسی جہاد کی بدولت کبھی بے رحم قابض بھارت چیخ رہا تھا تو کبھی مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث عالمی طاقتیں اور اُن کے گماشتے۔شریعیت محمدی ﷺ کا پرچم اٹھا کر چلنے والوں کو راستوں کی صعوبتوں کو خاطر میں لائے بغیر مسلسل آگے بڑھنا ہوتا ہے،دکھوں کے کوہ ہمالیہ اپنی ٹھوکر سے دونیم کرنے پڑتے ہیں۔ یہ سالاری کوئی جُز وقتی انقلاب کی امامت کیلئے نہیں ہوتی بلکہ اس قافلہ نے اُس عظیم پیغام کو قیامت کی صبح تک دشت و صحرا میں صفتِ جام لے کر پھرنا ہوتا ہے- دوستوں کا خیال ہے کہ وہ مکہ چھوڑ کر آئے تھے لیکن میرا یقینِ کامل ہے کہ وہ مکہ سے بھیجے گئے تھے اور ازاں بعد اُن کی دینی خدمات نے ثابت کیا وہ آئے نہیں بھجوائے گئے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمان مکی دوقومی نظریہ کے حمایتی نہیں بلکہ ان جید علماء میں سے تھے جنہوں نے اپنے وجود سے ثابت کیا کہ محمد ﷺ کے امتی کبھی مشرکوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔وہ اُسی علم حقیقی کے بحر بیکراں کے شناور تھے جو پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے۔ آج میں سالارِ ملت سے تعزیت کرنا چاہتا ہوں کہ اُن کے دست راست ٗ یارانے دیرینہ ٗبرادرِ نسبتی اور اُن کی علمی و ادبی و جہادی اور شریعت محمدیﷺ کے نفاذ کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والے عظیم قائد دنیا سے رخصت ہو گئے۔
آج تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم سب محسن شہ رگ پاکستان کے دست و بازو ہیں اور ہمارا رستہ عبد الرحمان مکی کا رستہ ہے جو اپنے عظیم موقف،تنظیم، قیادت اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے وفا کا رستہ ہے۔ عمر میں وہ محسن شہ رگ پاکستان سے ساڑھے پانچ سال چھوٹے تھے لیکن ساری زندگی انہوں نے جس انداز سے محسن پاکستان کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ ہم سب کے لیے لائق رشک اور قابل تقلید ہے- میں سمجھتا ہوں کہ آج ہم ہی نہیں حرف،لفظ،خیال،اظہار و بیان ،موقف،بیانیہ،مباحثہ اور مکالمہ بھی یتیم ہوگیا- اللہ اگلی منزلوں میں دنیا سے زیادہ سرخرو فرمائے۔آمین








