کسی بھی نعرے یا مطالبے کا واحد حل جو ہمارے ہاں رائج ہے وہ ہے اس کو بزور قوت یا بزور زبان ریجیکٹ کردو جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نعرہ اور وہ مطالبہ شدت پکڑتا ہے، این جی اوز کی شہ ملتی ہے، بیرونی امداد ملتی ہے، انٹرنیشل میڈیا کوریج دے کر حوصلہ فراہم کرتا ہے اور پھر وہی نعرہ قومی سلامتی اور ملکی بقا سے ٹکراتا ہے یہ چیز بھی یاد رکھیں کہ ہر تحریک اور ہر نعرہ چند حقائق بھی رکھتا ہے جو ہمارے معاشرہ کے ظلم و جبر اور استحصالی نظام ان کو فراہم کرتا ہے یہ اور بات ہے کہ ان حقیقی اور جائز مطالبات کی آڑ میں لمبی چوڑی ناجائز مطالبات اور نعروں کی فہرست ہوتی ہے جو بالواسطہ یا بالاواسطہ ہمارے مذہب اور ہماری قومی سلامتی سے متصادم ہوتی ہے.
اگر کسی بھی تحریک کے آغاز ہی میں اس کے جائز مطالبات اور تحفظات کو پورا کردیا جائے تو ان کے سینکڑوں ناجائز مطالبات اپنی موت آپ مرجاتے ہیں. پی ٹی ایم کی مثال ابھی بالکل تازہ اور ہمارے سب کے سامنے کی ہے. نقیب اللہ محسود کے قتل پر انصاف کا مطالبہ بالکل مبنی بر حق مطالبہ تھا جو پورا نہ کیا گیا جس کا نتیجہ تاحال بھگت رہے ہیں. اب یہ عورت مارچ کا ایشو بھی ایسا ہی ہے جتنا ٹرول کریں گے، تنقید کریں گے، سوشل میڈیا پر اس کے اینٹی ٹرینڈز چلائیں گے ان کو اور شہرت ، قوت اور بین الاقوامی توجہ ملتی جائے گی، آسیہ مسیح، ملالہ یوسفزئی اور مختاراں مائی جیسے کتنے ہی ایسے ایشوز اور کیسز ہوتے ہیں جن کو ہم اتنی ہائپ دیتے ہیں کو بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے اور پھر معاملہ ہمارے اختیار میں نہیں رہتا.
عورت مارچ بالکل ویسا ہی مسئلہ ہے ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال جاری و ساری ہے اس میں کردار میڈیا، شوبز، معاشرہ سب ملوث ہیں جنہوں نے عورت کو انسان سے object اور پراڈکٹ بنادیا ہے کوئی بھی چیز بیچنی ہے تو اس کے لیے اس کے کمرشل میں عورت کا ہونا ضروری ہے حتیٰ کے ٹریکٹرز تک کی کمرشلز میں ہم عورت سے اپنے جسم کی نمائش کرواتے ہیں. کالج، یونیورسٹی، آفس، ٹرانسپورٹ ، بازار، پارک اور دیگر پبلک پلیسز پر نظر آنے والی عورت ہمارے نزدیک عورت نہیں ہماری نظروں کی تسکین کا ذریعہ ہوتی ہے.
ہم تو چھوٹی بچیوں تک کو معاف نہیں کرتے زینب کا کیس سب کے سامنے ہے، ریپ کے کتنے کیسز ہوتے ہیں، کالجز اور یونیورسٹیز میں کس طرح سے عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، تیزاب پھینکنے کے کتنے واقعات ہوتے ہیں.
یہ سب مکروہ حقائق ہیں جو بنیاد بنتے ہیں اور اس کی بنیاد پر شرپسند عناصر اور این جی اوز اپنا کام کرتی ہیں اور بڑی معذرت کے ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز ان نعروں کے خلاف نہیں اپنے نظام کے خلاف چلائیے آواز اٹھانی ہے تو اپنے سسٹم کے خلاف اٹھائیے جو مختلف طبقات کا استحصال کرکے ان کی آڑ میں مختلف گمراہ کن تحریکوں کو پنپنے کا موقع دیتا ہے اور ان استحصال زدہ طبقات کی بجائے ان نعروں اور تحریکوں کو تحفظ اور قوت دے کر کھل کھیلنے کا موقع دیتا ہے مثالیں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں.

Shares: