مزید دیکھیں

مقبول

سربیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا احتجاج ، ایوان میدان جنگ بن گیا

سربیا کی پارلیمنٹ میں احتجاج کے دوران اپوزیشن ارکان...

ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے مریضوں کی قیمت خرید متاثر

قصور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے مریضوں کی...

سیف علی خان اور کرینہ کپو ر میں طلاق کی پیشگوئی

بالی وڈ کی مشہور جوڑی، سیف علی خان...

اوچ شریف: سبزی و فروٹ منڈی میں من مانی قیمتیں، عوام پریشان

اوچ شریف ،باغی ٹی وی(نامہ نگارحبیب خان) سبزی و...

عورت کا مقام، اسلام اور دیگر مذاہب کی روشنی میں

عورت کا مقام، اسلام اور دیگر مذاہب کی روشنی میں
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
8 مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن ہے، جو دنیا بھر میں صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی علامت ہے۔ اس دن خواتین کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی کامیابیوں کو سراہا جاتا ہے اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے خاتمے پر زور دیا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں مزدور تحریکوں سے شروع ہونے والا یہ دن 1975 میں اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کیا گیا اور اب دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم، صحت اور معاشی خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جہاں خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں اور صنفی مساوات کے حصول کے لیے جدوجہد کا عزم کرتی ہیں۔

خواتین کے حقوق ہر مذہب اور معاشرت میں ایک اہم اور حساس موضوع رہا ہے۔ ہر مذہب نے خواتین کی حیثیت، ان کے حقوق اور فرائض کے متعلق مخصوص نظریات اور قوانین پیش کیے ہیں۔ بعض معاشروں میں خواتین کو مکمل برابری حاصل رہی، جبکہ کئی مذاہب میں انہیں مرد کے تابع رکھا گیا۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے، وہ نہ صرف اپنے وقت کے لحاظ سے انقلابی تھے بلکہ آج بھی خواتین کے تحفظ اور مساوات کے لیے ایک جامع ضابطہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مضمون میں اسلام اور دیگر مذاہب میں خواتین کے حقوق کا تقابلی جائزہ لیا جائے گا تاکہ واضح ہو سکے کہ خواتین کو کہاں زیادہ تحفظ، عزت اور برابری حاصل ہوئی۔

اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں خواتین کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے قبل کسی بھی سماج یا تہذیب میں نہیں دیے گئے تھے۔ اسلام سے پہلے خواتین کو نہ تو وراثت میں حصہ ملتا تھا اور نہ ہی انہیں سماجی برابری حاصل تھی۔ لیکن اسلام نے انہیں ایک مکمل انسان اور مرد کے برابر قرار دیا۔ تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا اور خواتین کو اس حق سے محروم نہیں رکھا گیا۔ حدیث مبارکہ میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔” یہ تعلیم صرف دینی علم تک محدود نہیں بلکہ دنیاوی تعلیم بھی شامل ہے تاکہ خواتین اپنی ذاتی، سماجی اور معاشی زندگی بہتر بنا سکیں۔

قبل از اسلام خواتین کو جائیداد رکھنے اور وراثت میں حصہ لینے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا لیکن اسلام نے اس غیر منصفانہ روایت کو ختم کر دیا۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ "مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ، یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔” (النساء:7)۔ یہ اصول دنیا کے کسی اور مذہب میں اس طرح نہیں پایا جاتا جہاں خواتین کو وراثت میں اتنا واضح اور یقینی حق دیا گیا ہو۔

اسلام میں نکاح عورت کی مرضی کے بغیر جائز نہیں اور اسے خلع لینے کا بھی مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے سے مطمئن نہیں ہے تو اسے شرعی بنیادوں پر طلاق لینے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق عیسائیت اور ہندو مت میں بہت محدود رہا ہے، جہاں خواتین کو شوہر کی مرضی کے بغیر نکاح ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

عیسائیت میں خواتین کو مذہبی قیادت کا مکمل اختیار نہیں دیا گیا۔ آج بھی کیتھولک چرچ میں خواتین کو پوپ یا کارڈینل بننے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ اسلام میں حضرت عائشہؓ سمیت کئی خواتین نے مذہبی فتوے جاری کیے اور علمی میدان میں نمایاں کردار ادا کیا.اسلام نے خواتین کی عزت اور وقار کو یقینی بنانے کے لیے واضح احکامات دیے ہیں۔ قرآن میں حکم دیا گیا کہ اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا کریں، یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں(سورہ الاحزاب: 59) یہ حکم خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دیا گیا تاکہ وہ کسی بھی طرح کے استحصال اور ہراسانی سے محفوظ رہیں۔

عیسائیت میں ابتدا میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل نہیں تھے بلکہ انہیں مرد کی خدمت گزار اور تابع تصور کیا جاتا تھا۔ بائبل میں بعض مقامات پر خواتین کو مرد سے کم درجے کا قرار دیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی عیسائی تعلیمات میں خواتین کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو اسلام میں دیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ میں کیتھولک چرچ نے خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور انہیں جائیداد رکھنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ صرف نوبل خاندانوں کی خواتین کو بعض حقوق دیے گئے، لیکن عام عورت کے لیے تعلیم اور جائیداد کی ملکیت ایک خواب تھا جبکہ اسلام نے ان دونوں چیزوں کو لازمی قرار دیا۔

عیسائیت میں عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی عورت ناپسندیدہ شادی میں پھنسی ہوئی ہو، تب بھی وہ اس رشتے کو ختم نہیں کر سکتی، جب تک کہ چرچ کی خصوصی اجازت حاصل نہ ہو، جو کہ بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا جو کہ اس کا بنیادی حق ہے۔

ہندو مت میں خواتین کے حقوق صدیوں سے ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہے ہیں۔ ہندو مت میں ایک طویل عرصے تک "ستی” کی رسم موجود رہی، جس میں بیوہ عورت کو شوہر کے مرنے کے بعد زبردستی اس کی چتا کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔ یہ رسم برطانوی دور میں ختم کی گئی، لیکن اسلام نے ابتدا ہی سے ایسی کسی بھی غیر انسانی رسم کی اجازت نہیں دی۔

ہندو معاشرے میں خواتین کو وراثت کا مکمل حق حاصل نہیں تھا خاص طور پر بیٹیوں کو اکثر جائیداد سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے خواتین کو وراثت میں مقررہ حصہ دیا، چاہے وہ بیٹی ہو، ماں ہو، بہن ہو یا بیوی۔ ہندو مت میں خواتین کے دوبارہ شادی کرنے پر سخت پابندیاں رہی ہیں جبکہ اسلام میں بیوہ یا مطلقہ عورت کو دوبارہ شادی کرنے کی مکمل اجازت دی گئی ہے۔

یہودیت میں بھی خواتین کو محدود حقوق دیے گئے ہیں۔ انہیں مذہبی عبادات میں مردوں کے برابر شرکت کی اجازت نہیں ہے اور وراثت میں ان کا حق بہت محدود ہے۔ اسی طرح بدھ مت میں خواتین کو نجات (نروان) حاصل کرنے کے لیے مردوں کے تابع رہنا پڑتا ہے جبکہ اسلام میں خواتین کو مساوی روحانی حقوق حاصل ہیں۔

اسلام نے خواتین کو دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب سے کہیں زیادہ حقوق عطا کیے ہیں، جو کسی دوسرے مذہب میں موجود نہیں ہیں۔ اسلام سے پہلے، خواتین کو معاشرے میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھالیکن اسلام نے انہیں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عزت اور احترام کا مقام دیا۔ اسلام نے خواتین کو تعلیم، وراثت، اور جائیداد میں حق دیا، اور انہیں اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق بھی دیا۔

اس سب کے باوجود مغربی ذرائع ابلاغ اکثر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں غلط فہمی، ثقافتی اختلافات، سیاسی مقاصد اور میڈیا کا کردار شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھیں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ کسی بھی دوسرے مذہب سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہمیں ان حقوق کو نافذ کرنے اور خواتین کو معاشرے میں برابر کا مقام دلانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا تقابلی جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو سب سے زیادہ عزت، حقوق اور تحفظ دیا۔ جہاں دیگر مذاہب میں خواتین کو محدود مواقع اور حقوق دیے گئے وہیں اسلام نے انہیں مکمل سماجی، معاشی، ازدواجی، تعلیمی اور قانونی حقوق عطا کیے۔ اسلام نے خواتین کی عزت کو لازم قرار دیا اور انہیں مساوی حقوق دیے جو آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں