سڈنی میں چینی طالب علموں کو نشانہ بنانے والے ‘ورچوئل اغوا’ کے اسکام میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے سنگین مالی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
باغی ٹی وی : پچھلے مہینے ریاست بھر میں ’ورچوئل کڈنیپنگ‘ کے چار کیسز سامنے آئے ہیں، جن کو نشانہ بنایا گیا ہےجن کی عمریں 17 سے 23 سال کے درمیان ہیں کو 280,000 ڈالر تک کی رقم ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا انہیں ملک بدری کا سامنا ہے۔
بچپن میں لارڈ آف دی رنگزاورہوبٹ فلموں سے متاثرچار بہنوں نے ایک گاؤں تعمیر کر …
غیر ملکی میڈیا کےمطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران آسٹریلیا کی ریاست نیوساؤتھ ویلزمیں طالبعلموں کی ورچوئل اغوا کاچوتھا واقعہ سامنے آیا ہے جس میں طالب علموں کے والدین سے لاکھوں ڈالرز تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے، چاروں واقعات میں چینی طلباء کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جاسوس سپرنٹنڈنٹ جو ڈوئیہی نے کہاکہ یہ شرمناک ہے کہ وہاں پر دھوکہ باز بین الاقوامی طلباء کا شکار کر رہے ہیں جو آسٹریلیا میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایک نئے ملک میں رہ رہے ہیں اور اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیاروں سے بہت دور ہیں۔
مجموعی طور پر، واقعات کی تازہ ترین لہر میں 750,000 ڈالر سے زیادہ کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور آج تک متاثرین یا ان کے اہل خانہ نے 170,000 ڈالر سے 270,000 ڈالر کے درمیان ادائیگی کی ہے۔
آسٹریلوی پولیس کے مطابق جعلساز طالبعلم کو فون کرکے بتاتے ہیں کہ وہ چینی قونصل خانے، سفارتخانے یا پھر پولیس ڈیپارٹمنٹ سے بات کر رہے ہیں اور طالبعلم کو بتایا جاتا ہے کہ اس کا نام کسی خطرناک یا بہت بڑے جرم کے سلسلے میں سامنے آیا ہے اب اگر وہ سزا اور ڈیپورٹیشن سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھاری رقم ادا کرنا ہوگی۔
ہمیں ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں اوران سے چھٹکارا کیسے پایا جائے؟
پولیس کے مطابق اگر طالبعلم انہیں کہتا ہے کہ اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے تو جعلساز اسےکہتے ہیں کہ وہ اس کی مدد کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کے والدین کو اس معاملے کی خبر نہ لگے تو پھر وہ اپنی کچھ تصویریں بنا کر انہیں بھیج دے جن سے لگے کہ وہ اغوا ہو گیا ہے، بعد میں وہ تصاویر طالبعلم کے والدین کو بھیج کر ان سے اپنے بچوں کی رہائی کیلئے بھاری تاوان طلب کیا جاتا ہے۔
آسٹریلوی پولیس کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران پولیس کے رابطہ کرنے سے قبل ایک 23 سالہ طالبہ کے والدین اپنی بیٹی کی رہائی کیلئے دو لاکھ ستر ہزار آسٹریلوی ڈالر اور ایک 22 سالہ طالبہ جعلسازوں کو 20 ہزار آسٹریلوی ڈالرز تاوان ادا کر چکی تھی، دیگر دو طالبعلموں سے بھی بھاری رقم طلب کی گئی تھی تاہم کسی بھی قسم کی ادائئگی سے قبل پولیس نے ان سے رابطہ کر لیا تھا۔
منظم جرم بین ریاستی اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر ہو رہا ہے، جس سے دنیا بھر میں لاکھوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں پولیس کو خوف ہے کہ بین الاقوامی طلباء کی آسٹریلیا واپسی کے بعد وبائی بیماری کے دوبارہ سر اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔
لینڈا یاکارینو کو ٹوئٹر کی نئی سی ای او مقرر کردیا گیا
جاسوس سپرنٹنڈنٹ دوئیہی نے کہا، "ہم اس کی وجہ کوویڈ کا ختم ہونا بتاتے ہیں، بین الاقوامی طلباء اب دوبارہ سفر کر رہے ہیں اور وہ ملک میں آ رہے ہیں ہم نے 2020 میں ان جرائم کی ایک بڑی تعداد دیکھی تاہم، ایک اہم میڈیا مہم اور کویوڈ کی وجہ سے آسٹریلیا آنے والے چینی طلباء کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ہم نے پچھلے دو سالوں سے کوئی جرم نہیں دیکھا۔
وسیع پیمانے پر جرم کا آغاز طالب علموں کو مینڈارن بولنے والے کسی شخص کی طرف سے کال موصول ہونے سے ہوتا ہے، جو چینی اتھارٹی، جیسے کہ سفارت خانہ، قونصل خانہ یا پولیس کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
دوسری جانب آسٹریلیا میں چینی سفارت خانے کے حکام کا کہنا تھاکہ چین میں قانون نافذ کرنےوالے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، انہوں نے والدین کو خبردار کیا کہ وہ جعلسازوں کے جھانسے میں نہ آئیں، حکومتی حکام کبھی بھی طالبعلوں یا ان کے والدین کو کال کرکے رقم کا مطالبہ نہیں کرتے۔