2018ء انتخابات کے بعد عمران خان اقتدار میں ہیں اور ان کے مخالفوں کی ہر رات کانٹوں پر بسر ہو رہی ہے تو حکومت و اقتدار کے باوجود چین کی نیند عمران خان اور اس کے ہمدردوں کو بھی نصیب نہیں ہوئی ۔ اب اگلے ایک برس بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ ہنگامہ خیز سیاست سے بھر پور ہوگا ۔ آج وزیراعظم عمران خان نے معروف امریکی اسکالر شیخ حمزہ یوسف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب سیاست میں آیا تو طاقتور لوگوں نے میری کردار کشی کی لیکن آپ اپنی ناکامیوں سے سیکھتے ہیں، میں نے 22 سال تک جدوجہد کی۔ پھر یہ بھی کہا کہ کوئی بھی معاشرہ قانون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانا میری زندگی کا مقصد ہے۔ باتیں ہمارا کپتان بہت اچھی کرتا ہے مگر عمل اس کے بالکل الٹ کرتا ہے ۔ ان کی جو بھی کردار کشی ہوئی اس سے ہٹ کر عمران خان کے اس دور میں جو مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے ۔ پھر جو عمران خان اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہتے ہیں اور یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ریاست مدینہ بناوں گا تو جو اس وقت ملک میں فرشتوں کی حکومت ہے اس بارے بھی سب ہی جانتے ہیں ۔
۔ اس دور حکومت میں بھی کرپشن ویسے ہی خوب پھیلی پھولی ہے اور بڑھی ہے جیسے پہلا ہوا کرتی تھی ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس اس حوالے سے سب بڑا ثبوت ہے ۔ جس کے بارے شہباز گل کا دعوی تھا کہ یہ پرانے اعداد وشمار پر بنائی گئی ہیں ۔ مگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس وقت ہی حکومت کو جھوٹا قرار دیے دیا تھا ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں کرپشن کے ریٹ دوگنا ہو چکے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ایک لمبی فہرست ہے جو میں آپ کو بتا سکتا ہوں ۔ ۔ روالپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل ۔ ۔ حالیہ جو شوگر مافیا کے ساتھ سودے بازی ہوئی جس میں مافیا نے تقریباً ایک سو پچاس ارب کی دیہاڑی لگائی مگر حکومت خاموش تماشائی بنی رہی ۔۔ پھر کرونا فنڈ میں 40 ارب کا جو حساب ہی نہیں ملا ۔ اس سے بڑی کرپشن کیا ہوگی ۔۔ حلیم عادل شیخ ، عثمان بزدار، نورالحق قادری ،غلام سرور خان ، ڈاکٹر ظفر مرزا ، عامر محمود کیانی، زلفی بخاری ، فیصل واڈا، سبطین خان، مالم جبہ اراضی کیس، ہیلی کاپٹر کیس ، چینی ، آٹا ، گیس ، بجلی ، پیڑول ، ادویات اسکینڈل ، بی آر ٹی کون کون سے نام اور کون سے کون اسکینڈل گنواوں ۔۔۔
۔ اس حوالے سے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک نے کل ہی سلیم صحافی کے پروگرام میں بیٹھ کر انکشاف کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے سرکاری دفاتر میں انتہا کی کرپشن ہورہی ہے۔ انکا کہنا کہ کوئی نیا پاکستان نہیں ہے۔ وہی پرانا پاکستان ہے ۔ ضلعی دفاتر اور ترقیاتی کاموں میں کرپشن عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کرپشن سے آگاہ کرنے کے لئے وقت مانگا تھا مگر وقت نہیں دیا گیا۔۔ پھر جو پی ٹی آئی کے ماتھے جھومر ہے اس کا نام ہے فارن فنڈنگ کیس۔۔ جس میں غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ہنڈی کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔ پھر جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے۔ اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔ اکبر ایس بابر نے یہ معاملہ اٹھایا ہوا ہے ۔ اور پی ٹی آئی اس سے چیز سے کنی کتراتی ہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملے کی جانچ پڑتال نہ کرے ۔ اس لیے بار بار عدالتوں سے اسٹے لیا جاتا ہے ۔ ۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کا اعزاز یہ ہے کہ کوئی بھی ہائی پروفائل کیس اس حکومت کے دور میں منطقی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔ کرپشن کے خلاف جنگ صرف میڈیا تک محدود ہے۔ اخبارات میں خبریں چھپتی اور چند دن بعد فراموش کر دی جاتی ہیں۔۔ اسکینڈل تو یہ بھی ہے کہ کپاس کی پیداوار نصف سے بھی کم رہ گئی ہے ۔ پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار تقریباً دس من فی ایکڑ کم ہے۔ گنے کی فصل کے کسان کو پیسے زیادہ ملے کیونکہ فصل اور فی ایکڑ کاشت پچھلے سال سے کم تھی لیکن انہیں شاندار پیداوار قرار دیا جارہا ہے۔ جس طرح جی ڈی پی کی شرح کو اچانک بڑھانا اس حکومت کے کوئی کام نہیں آسکا اس طرح زرعی پیداوار کے غلط اعدادوشمار چینی اور آٹے کی قلت اور مہنگا ہونے سے روک نہیں پائے ۔
۔ دوسری جانب آئی ایم ایف والا معاملہ تو اس حکومت میں مذاق ہی بن کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کی پرانی باتیں اب میں کیا یاد کرواں ۔ مگر جو سچ ہے وہ یہ ہے کہ جیسے حکومت لیٹی ہوئی ہے اور کشکول لے کر کھڑی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کبھی آصف زرداری اور نواز شریف کے کرپٹ ادوار میں بھی نہیں ہوا ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے طے کی گئے شرائط کے مطابق منی بجٹ لانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔۔ اب حکومت نے 350 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے ترمیمی فنانس بل میں شیڈول چھ کو ختم کرنا ہے ۔ پھر حکومت برآمدات کے علاوہ زیرو ریٹنگ سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لے گی ۔ مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کیے جانے کا امکان ہے۔ ساتھ ہی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100 ارب روپے مقرر کرنےکا تجویز ہے جبکہ ترقیاتی پروگرام میں200 ارب روپے کمی کرنے کی تجویز بھی ترمیمی بل کا حصہ ہے۔ اب جلد ہی ترمیمی بل کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کو 12 جنوری 2022 سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہے۔۔ یہاں بس یاد کروادوں کہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے چند روز پہلے ہی بتایا تھا کہ ہمارا مسئلہ مہنگائی ہے، لوگ پس گئے ہیں ۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد نیا ٹیکس لگائیں گے نہ بڑھائیں گے۔ ڈالر
8،9 روپے نیچے آئےگا۔ جلد تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوگی۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ شوکت ترین کتنا سچ اس ملک وقوم سے بولتے ہیں ۔ ۔ پھر مجھے یہ کہنے میں زرا برابر بھی ججھک محسوس نہیں ہوتی کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے جوہری اور قومی اثاثوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف چونکہ امریکہ کے زیر اثر عالمی ادارہ ہے اور وہ امریکی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے قرض لینے والے ملکوں پر دباؤ بھی بڑھاتا رہتا ہے۔ حکومت پاکستان کو غیرملکی قرضوں پر انحصار کی بجائے خو د انحصاری کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی ایسا ماڈل موجود نہیں کہ کسی ملک کی آئی ایم ایف کے قرض سے معیشت ٹھیک ہوئی ہو بلکہ آئی ایم ایف کے قرض کے باعث معاشی تباہی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ویسے اس سے ملتی جلتی تمام باتیں جب عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تھے تو خوب کیا کرتے تھے ۔ آپ دیکھیں ملائشیا کی معیشت کو آئی ایم ایف نے تباہ کر دیا تھا لیکن مہاتیر محمد کی بے باک لیڈرشپ نے آئی ایم ایف سے جان چھڑائی اور ملائشیا کو دوبارہ ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
۔ وزیراعظم عمران خان بلندبانگ تقاریر تو کرتے ہیں لیکن وہ ان پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ ۔ تحریک انصاف حکومت کا توکوئی ترجیحی ایجنڈا ہی نظر نہیں آتا۔ پھر تماشا یہ ہے کہ قوم کوکفایت شعاری کا درس دینے والوں نے گزشتہ چار ماہ کے دوران صرف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 72کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ۔ کھانے پر 4کروڑ 39لاکھ روپے اور اوور ٹائم پر
82 لاکھ،پٹرول پر 83لاکھ، 12کروڑ 87لاکھ اعزازی تنخواہوں کی مد میں اور دوروں پر 3کروڑ 48لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اس لیے میں مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ موجودہ حکمران بھی تبدیلی کے نام پر ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہیں۔ جو اقتدار سے لطف اُٹھانے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ ۔ اس حوالے سے آپ جماعت اسلامی کی سیاست سے متفق ہوں یا نہیں ہوں ۔ پر اسلام آباد میں یوتھ مارچ سے خطاب کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بات بالکل ٹھیک کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان کو تیس سال پیچھے لے گئی ہے۔ 2023ء میں عوام عمران خان کو آئینہ دکھائیں گے، جو نوجوان انہیں اقتدار میں لائے وہی بھگائیں گے۔۔ پھر کل مولانا نے لاڑکانہ میں اچھے خاصے مجمعے میں کافی دھواں دار بیٹنگ کی ہے ۔ ۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو بین الاقوامی کالونی نہیں بننے دینگے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف کے ماتحت ہوچکا ہے۔ فاٹا اور کشمیر دونوں کا اس وقت کوئی وارث نہیں ۔ پاکستان کے بقاءکی جنگ خون کے آخری قطرے تک لڑینگے ۔ پھر یہ بھی کہا کہ ہمارا نوجوان بہت مظلوم ہے، اسکو ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دے کر ایک کروڑ لوگوں کو بے روز گار کیا گیا ،پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا لیکن پچاس لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا گیا ،نعروں سے ملک نہیں چل سکتا ،جو حکومت خود دھاندلی کے ذریعے آئی وہ خود دھاندلی کے متعلق قانون سازی کروا رہی ہے حالانکہ اس مشین کو پوری دنیا مسترد کر چکی ہے۔ میں آپکو بتاوں کہ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمٰن اور قوم پرست جماعتیں تحریک کو فیصلہ کن مرحلے کی طرف لے جانا چاہتی تھیں لیکن مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے اس بارے میں مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت پی ڈی ایم کی جماعتیں مسلم لیگ ن کی سیاست سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر پا رہیں کیونکہ کبھی مسلم لیگ ن کی سیاست میں یک دم تیزی آجاتی ہے پھر اچانک اس میں ٹھہرائو آجانے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کہیں کوئی بات چیت چل رہی ہے۔ اور شاید ان کو اس بات چیت کے نتائج کا انتظار ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق قوم پرست جماعتوں نے اس پر شکوہ بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے میں پنجاب کی بھرپور شرکت ہی تحریک کو نتیجہ خیز بنا سکتی ہے۔ فی الحال میری نظر میں عوام ہر طرف سے پس رہے ہیں کیونکہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام دیکھائی دیتی ہے ۔