عوام کی جھولی اور حکمران
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گرا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 8 روپے 36 پیسے فی لیٹر اضافے کے بعد نئی قیمت 258 روپے 43 پیسے سے بڑھ کر 266 روپے 79 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے 39 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا، جس کے بعد یہ 262 روپے 59 پیسے سے بڑھ کر 272 روپے 98 پیسے فی لیٹر ہو گئی اور پاکستانی عوام کی جھولی میں ایک نیا معاشی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ عوام کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے بوجھ تلے دبایا گیا ہو۔ 2023 میں پٹرول کی قیمت 331.38 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی تھی جو صرف 15 دنوں میں 41 روپے کا اضافہ تھا۔ اس بار کا اضافہ بھی عام پاکستانی اور خاص طور پر مزدور طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہے جو پہلے ہی مہنگائی، بجلی کے بھاری بلوں اور کم آمدنی سے پریشان ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف پمپ پر پٹرول اور ڈیزل کے نرخ تک محدود نہیں بلکہ یہ معیشت کے ہر شعبے کو متاثر کرتا ہے۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے نجی اور عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 10-20% اضافہ ہوچکا ہے۔ مزدور طبقہ جو اپنی آمدنی کا 20-30% آمدورفت پر خرچ کرتا ہے، اس اضافے کی وجہ سے خوراک اور تعلیم جیسے بنیادی اخراجات پر کٹوتی کرنے پر مجبور ہے۔ ایک مزدور جس کی ماہانہ تنخواہ 20,000 سے 30,000 روپے کے درمیان ہے، اپنی آمدنی کا بڑا حصہ صرف ٹرانسپورٹ کرایوں پر خرچ کرنا پڑرہا ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے نقل و حمل کے اخراجات 15-25% بڑھ چکے ہیں جو زرعی اجناس، سبزیوں اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ آٹا، چینی، اور سبزیوں کی قیمتوں میں 10-15% اضافہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بنا دیاہے۔ مزدور طبقہ جو اپنی آمدنی کا 50-60% خوراک پر خرچ کرتا ہے، غذائی قلت اور قرض کے دلدل میں دھنس چکا ہے۔

اس کے علاوہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے زرعی مشینری اور صنعتی پیداوار کے اخراجات بڑھ چکے ہیں، جس سے زرعی اور صنعتی شعبوں کے اخراجات میں 5-10% اضافہ ہونالازم ہے۔ جس کا نتیجہ صنعتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور کسانوں کی آمدنی میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ صنعتیں اخراجات کم کرنے کے لیے ملازمین کی تعداد کم کر رہی ہیں، جس سے مزدور طبقے کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ مجموعی مہنگائی کی شرح کو بڑھاچکا ہے، جیسا کہ 2010 میں 6.10 روپے فی لیٹر اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا تھا اور 2025 تک یہ رجحان جاری ہے۔ اس سے عام پاکستانی کی قوت خرید کم ہوچکی ہے اور وہ بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔

بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (FCA) نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ 2024 میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2.31 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا جو صارفین کے بلوں میں غیر متوقع اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارف کا بل 3,000-3,500 روپے سے بڑھ کر 8,500-9,000 روپے تک جا سکتا ہے اگر وہ ایک یونٹ بھی زیادہ استعمال کر لے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کی زیر نگرانی بنائی گئی سلیب پالیسی، جسے عوام "سلیب گردی” کہتے ہیں، غریب صارفین کو سبسڈی سے محروم کر دیتی ہے۔ پروٹیکٹڈ صارفین (200 یونٹ تک) کو 260 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے لیکن 201 یونٹ پر بل 5,000 روپے تک بڑھ جاتا ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2,400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور اس کا بوجھ فیول ایڈجسٹمنٹ، سرچارجز اور ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ اویس لغاری نے بجلی چوری اور اوور بلنگ کے خلاف اقدامات کا دعویٰ کیا لیکن میپکو میں 152 ملازمین اوور بلنگ میں ملوث پائے گئے اور انہیں صرف وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا۔

غریب طبقہ جو پہلے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متاثر ہے، اب بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے مزید مشکلات کا شکار ہے۔ 2023 میں بجلی کی قیمتوں میں 14 بار اضافہ کیا گیا، جس نے عوام کی برداشت کو پار کر دیا۔ ملک بھر میں احتجاج ہوئے، جہاں لوگوں نے بجلی کے بل جلائے اور سڑکیں بلاک کیں۔ سوشل میڈیا پر عوام نے اسے "ظلم” قرار دیا، جیسا کہ ایک صارف نے لکھا کہ "ایک یونٹ اضافے سے بل دگنا ہو جاتا ہے۔” غریب خاندان خوراک، تعلیم اور صحت پر خرچ کم کر رہے ہیں، جس سے غذائی قلت اور غربت بڑھ رہی ہے۔ مزدور طبقہ جو پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے، اس اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ان کی آمدنی کا 60-70% خوراک، ٹرانسپورٹ اور رہائش پر خرچ ہوتا ہے اور اضافی اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجتاً وہ قرضوں اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

حکومت کی پالیسیاں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کی مشکلات بڑھا رہی ہیں۔ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کو جواز بنا کر یہ بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ اویس لغاری کی قیادت میں پاور سیکٹر کی اصلاحات کے دعوؤں کے باوجود بجلی چوری، اوور بلنگ اور گردشی قرضے کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پٹرولیم لیوی کو کم کر کے یا سبسڈی دے کر عوام پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے حسابات کو شفاف بنایا جائے اور اسے پچھلے مہینوں کے بجائے موجودہ بل میں شامل کیا جائے۔ پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے سلیب کی حد کو 200 سے بڑھا کر300 یونٹ تک کیا جائے۔ 250 ارب روپے کی بجلی چوری کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ پن بجلی، سولر اور ونڈ پاور جیسے سستے ذرائع پر انحصار بڑھایا جائے تاکہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت کم ہو۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور بجلی کے بھاری بلوں نے پاکستانی عوام کی جھولی کو مہنگائی اور معاشی دباؤ سے بھر دیا ہے۔ غریب اور مزدور طبقہ جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، اس "ظلم” کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ سوشل میڈیا پر عوام کا غم و غصہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ اضافہ ناقابل برداشت ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر ریلیف نہ دیا تو عومی بے چینی بہت بڑے احتجاج کا باعث بن سکتی ۔ حکمرانوں کوعوام کی جھولی کو خالی کرنے کے بجائے اسے سہارا دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشی بدحالی سے نکل سکیں اور ایک باوقار زندگی گزار سکیں۔

Shares: