عوامی حقوق کی پامالی میں اشرافیہ کا کردار

تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفی بڈانی
دو قومی نظریہ کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی تھی کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جن کا مذہب، ثقافت اور طرزِ زندگی ہندوؤں سے مختلف ہے۔ اسی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں اور سماجی انصاف، مساوی مواقع اور عوامی فلاح کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد جو سیاسی، سماجی اور معاشی حالات سامنے آئے وہ اس نظریے کی روح سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں ایلیٹ کلاس کی اجارہ داری نے تعلیم اور صحت جیسے عوامی حقوق کو محدود کرکے طبقاتی خلیج کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پاکستان کا قیام صرف ایک خطہ زمین کے حصول کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسی ریاست کا خواب تھا جہاں تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع ہوں اور معاشرتی تفریق نہ ہو۔ مگر آج کے پاکستان میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں میں اشرافیہ کا غلبہ اس نظریے کی نفی کرتا ہے۔ وسائل اور مواقع پر صرف ایلیٹ طبقے کا اختیار ہے جب کہ غریب عوام کو ان سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ حکومت اور اشرافیہ کے ذاتی مفادات نے عوامی مسائل کو نظرانداز کر دیا ہے۔

ریاستی وسائل اور پالیسیوں پر مسلسل قبضے کے باعث ریاستی اداروں کو دانستہ طور پر کمزور کیا جا رہا ہے۔ عوامی فلاح کے بجائے نجی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے عام شہری تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری تعلیمی نظام غریب طبقے کے لیے معیاری تعلیم کا ایک اہم ذریعہ تھا لیکن حالیہ برسوں میں پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن (PEF) اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تعلیمی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں تعلیمی معیار زوال کا شکار ہوا ہے۔ نجکاری کے بعد مڈل اور میٹرک پاس اساتذہ کو کم تنخواہوں پر بھرتی کیا گیا، جس سے تعلیم کا معیار متاثر ہوا۔ مزید برآں پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسوں اور اضافی اخراجات نے غریب عوام کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول ناممکن بنا دیا۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں صرف 20% اضافہ ہوا ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں 80% کمی ہوئی ہے۔ سرکاری اساتذہ کی نوکریاں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ ناتجربہ کار عملے کو بھرتی کیا جانے لگا جس سے تعلیم کے معیار کو مزید کمزور کیا گیا۔

تعلیم کے بعد صحت کا شعبہ بھی اشرافیہ کے ذاتی مفادات کا شکار ہو چکا ہے۔ دیہی اور بنیادی مراکز صحت (BHU) کو "آؤٹ سورس” کے نام پر نجی کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، جس سے عوام کے لیے طبی سہولیات مزید محدود ہو گئی ہیں۔ نجکاری کے بعد علاج کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے اور مفت علاج کی سہولت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں پہلے ہی طبی سہولیات ناکافی تھیں، نجی انتظامیہ کی آمد نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی کے باعث صحت کے مراکز میں خدمات کا معیار متاثر ہوا ہے اور غریب مریضوں کے لیے علاج کی سہولتیں مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔

پاکستان میں سماجی انصاف اور مساوی مواقع کا نظریہ اشرافیہ نے مسخ کر دیا ہے۔ وسائل اور مواقع کی غیر منصفانہ تقسیم نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کو اشرافیہ کے لیے سہل اور عوام کے لیے مشکل بنا دیا ہے۔ ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو منافع کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، جس سے عوامی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت اور ایلیٹ طبقہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور منافع کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کی نجکاری اور اشرافیہ کی اجارہ داری نے معاشرے میں سماجی ناانصافی کو فروغ دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف عوامی بدحالی کا سبب بن رہی ہے بلکہ پاکستان کے آئین میں دیئے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی بھی کر رہی ہے۔ اشرافیہ کی خودغرضی اور عوامی حقوق کی پامالی نے ملک کی ترقی کو رکاوٹ بنایا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جا سکیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

عوامی حقوق کی بحالی اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اصل مقصد کی طرف لوٹانے کی کوششیں شامل ہوں۔ اگر ہم واقعی ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک کو یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظریے کو صرف ایک سیاسی بیانیے تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے عملی زندگی میں لاگو کریں تاکہ پاکستان میں ہر شہری کو اس کے حقوق اور سہولیات مل سکیں۔

اگر عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہ کیے گئے اور تعلیم اور صحت کے شعبے کو اشرافیہ کے قبضے سے آزاد نہ کیا گیا تو سماجی تقسیم اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان مسائل کے حل پر توجہ دینا ہوگی اور عوامی حقوق کی بحالی اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنانا پڑے گی۔ اس میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اصل مقصد کی طرف لانا ہوگا اور اشرافیہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔

پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ حکومت اور ایلیٹ کلاس اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر عوامی فلاح کے لیے کام کریں۔ بصورت دیگر ملک میں سماجی تقسیم اور ناانصافی کا سلسلہ بڑھتا جائے گا اور پاکستان کا مستقبل کبھی بھی روشن اور تابناک نہیں ہوسکے گا۔

Shares: