قازقستان نے عوامی مقامات پر چہرہ چھپانے والے لباس، بالخصوص نقاب، پہننے پر باضابطہ پابندی عائد کر دی ہے۔ ملک کے صدر قاسم جومارت توقایف نے پیر کے روز اس پابندی کے قانون پر دستخط کر دیے، جس کے تحت ایسے لباس پر پابندی ہوگی جو چہرے کی شناخت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق، یہ اقدام عوامی تحفظ، سماجی ہم آہنگی، اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ "چہرے کو چھپانے والے ایسے تمام لباس جن سے شناخت ممکن نہ ہو، ان کا عوامی مقامات پر استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔”قازقستان اس نوعیت کی پابندی لگانے والا وسطی ایشیا کا پہلا ملک نہیں ہے۔ اس سے قبل کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک بھی اس جیسے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔
سال 2024 میں تاجکستان نے سرکاری طور پر حجاب پر مکمل پابندی عائد کی تھی، جس کے بعد خواتین کے لیے اسلامی طرزِ لباس پہننا قانونی طور پر ممنوع قرار پایا۔ اس کے علاوہ ازبکستان اور کرغزستان میں بھی خواتین کے مذہبی لباس، بالخصوص نقاب اور حجاب، پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔
نقاب اور حجاب پر پابندی کے ان اقدامات پر بین الاقوامی سطح پر بحث جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ ان پابندیوں سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے، جبکہ متعلقہ حکومتیں اسے قومی سلامتی اور معاشرتی استحکام کے لیے ضروری قرار دیتی ہیں۔قازق حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے انتظامی سزائیں اور جرمانوں کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔