شہید صفدر علی ، چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کی اپیل۔ تحریر:شاہد نسیم چوہدری

2 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
shahid naseem

22 فروری 2025 کا دن فیصل آباد کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جب ایک عام، محنت کش نوجوان صفدر علی، پاپا نانا پیزا شاپ کے اندر بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ شہادت ایک عظمت کا رتبہ ہے، جو اکثر ظالم کے ہاتھوں، بے گناہی کی سزا بن کر نصیب ہوتا ہے۔ صفدر علی کی شہادت نہ صرف ایک فرد کا نقصان ہے، بلکہ یہ ہمارے سماجی و عدالتی نظام کے ماتھے پر ایک نہ مٹنے والا دھبہ ہے۔
صفدر علی نہ کوئی مجرم تھا، نہ کسی جھگڑے کا حصہ، نہ کسی ذاتی دشمنی کا شکار۔ وہ صرف پیزا لینے گیا تھا، تاکہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک خوشگوار لمحہ گزار سکے۔ مگر ظالموں نے اس کی مسکراہٹ کو گولیوں سے چھین لیا۔ ایف آئی آر نمبر 375/25 کے مطابق، پیزا شاپ پر تعینات سیکیورٹی گارڈ بصویر نے مالک آصف کے اشتعال دلانے پر صفدر پر فائرنگ کی۔ وہ سڑک پر تڑپتا رہا، اور لوگ تماشائی بنے کھڑے رہے۔ پیزا شاپ کا مالک بھی قریب کھڑا تھا، مگر اس نے مدد کرنے کے بجائے تماشا دیکھا۔یہ صرف صفدر علی کی شہادت نہیں تھی، بلکہ یہ ہمارے ضمیر کی موت تھی۔ ایک زندہ انسان کے بے گناہ قتل پر معاشرہ خاموش رہا، نظامِ قانون خاموش رہا، اور وہ ادارے بھی خاموش رہے جو عوام کی حفاظت کے دعویدار ہیں۔مگر صفدر کے والد، حیدر علی، خاموش نہیں رہے۔ وہ اپنے بیٹے کی لاش کو دفن کرنے کے بعد انصاف کی راہوں پر نکل پڑے۔ انہوں نے تھانہ سمن آباد میں مقدمہ درج کروایا، قاتلوں کو نامزد کیا، مگر شہید حیدر علی کے والد کا کہنا ہے کہ قانون نے جیسے ان کے بیٹے کے خون پر سودا کر لیا ہو۔ ایس ایچ او امتیاز جپہ اور تفتیشی افسر ناصر عباس نے آصف کو دس دن مہمان بنا کر تھانے میں رکھا، ریمانڈ بھی نہ لیا، اور پھر "بے گناہ” قرار دے کر چھوڑ دیا۔یہ وہی ایس ایچ او ہے، جو اب اینٹی نارکاٹکس فورس کے ہاتھوں بھاری منشیات سمیت رنگے ہاتھوں گرفتار ہو کر معطل ہو چکا ہے۔ حیدر علی کا کہنا ہے کہ کیا اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ منشیات فروش ایس ایچ او کی زیر نگرانی تفتیشی ناصر عباس نے صفدر علی کے قاتل کو بے گناہ کیوں قرار دیا؟ کیا وہی ہاتھ جو منشیات بیچتے ہیں، قاتلوں کو بھی بچاتے ہیں؟

صفدر علی کی شہادت، پاکستان کے اس نظامِ انصاف پر ایک سنگین سوال ہے، جو طاقتور کے سامنے جھک جاتا ہے، اور مظلوم کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ آج حیدر علی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے لے کر چیف جسٹس پاکستان تک سب کو پکار رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں:”میرا بیٹا بے گناہ تھا، شہید ہوا۔ اس کا قاتل آزاد کیسے ہے؟”یہ سوال صرف حیدر علی کا نہیں، یہ ہر اس باپ کا ہے جس کا بیٹا ظلم کا نشانہ بن کر انصاف سے محروم ہو گیا۔ صفدر علی کی شہادت اس بات کی علامت ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں عام آدمی کا خون پانی سے بھی سستا ہو چکا ہے، اور طاقتور کے لیے قانون فقط ایک تماشا بن گیا ہے۔
اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا:
کیا ہم صفدر علی کی شہادت کو یونہی فراموش کر دیں؟.کیا ہم حیدر علی کی فریاد کو در و دیوار سے ٹکرا کر خاموش ہونے دیں؟یا ہم سب اس باپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، اور اس بے گناہ شہید کے لیے آواز بلند کریں گے؟.ہمیں اب خاموشی توڑنی ہوگی۔ہمیں درج ذیل اقدامات پر زور دینا ہوگا:1. شہید صفدر علی قتل کیس کی غیر جانبدارانہ، نئی تفتیش کا حکم دیا جائے – اعلیٰ پولیس افسران پر مشتمل شفاف تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے۔2. تھانہ سمن آباد کے ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے – امتیاز جپہ اور تفتیشی ناصر عباس جیسے اہلکاروں کے کردار کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔3. عدلیہ ازخود نوٹس لے – تاکہ یہ ثابت ہو کہ عدالتیں صرف طاقتور کے لیے نہیں، عام انسان کے لیے بھی ہیں۔4. پولیس اصلاحات کو فوری طور پر نافذ کیا جائے – سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد تفتیشی نظام بنایا جائے۔5. شہید صفدر علی کو ریاستی سطح پر انصاف دلایا جائے – تاکہ اس کی شہادت رائیگاں نہ جائے۔
حکومت، ریاست اور ادارے اگر اب بھی نہ جاگے، تو آنے والے وقت میں صفدر علی جیسے معصوم شہید ہوتے رہیں گے، اور حیدر علی جیسے باپ انصاف کے لیے در بدر ہوتے رہیں گے۔
صفدر علی ہم سب کا بیٹا ہے۔ اگر ہم نے آج اس کے لیےے آواز نہ اٹھائی، تو کل ہمارا اپنا بچہ بھی کسی پیزا شاپ کے اندرظلم کا نشانہ بن سکتا ہے۔کیا ہم شہید صفدر علی کے لیے کھڑے ہوں گے؟ یا ایک بار پھر خاموش تماشائی بنے رہیں گے ؟ شہید صفدر علی کے دکھی ماں باپ نےچیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے ۔۔۔!!

Latest from معاشرہ و ثقافت

آسمانی شادی

غربت کی رسی سے خودکشی کرنے والے باپ کی بیٹی کے نصیب ظفریات کتاب کا حقیقت پر مبنی دل سوز مضمون: آسمانی شادی تحریر: