از خدا جوییم توفیق ادب محمد عتیق گورائیہ

مرو به غُربت و عیشِ وطن غنیمت دان
اسیرِ کِشورِ غُربت همیشه بیمار است
یعنی اپنے وطن سے نہ جائیے اور اپنے وطن کی عیش و عشرت کو غنیمت جانیے اور اس سے فائدہ اٹھائیے۔ غریب الوطنی کا شکار بندہ ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ ماہ آزادی شروع ہےا ور آپ کو آزادی کے حوالے سے مختلف احباب کے خیالات و تاثرات الفاظ کی شکل میں پڑھنے کو مل رہے ہوں گے ۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے مذکورہ بالا شعر کا آزادی سے کیا تعلق ہے ۔ تو عرض یہ ہے کہ اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے دیارِغیر کہاں اپنا کہلایا جاسکتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں پرچم کے ساتھ پودا لگانے کا احسن کام بھی شروع ہے ۔ جہاں حکومتی سطح پر شجرکاری کا اہتمام کیا جا رہا ہے وہی پر اہل وطن بھی اس معاملے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں ۔ شجرکاری کے حوالے سے حکومتی اقدامات نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں ۔ پاکستانی جھنڈے کا ایک حصہ سبز ہے اور اس وقت موجودہ حکمران بھی پاکستان کو سرسبز کرنا چاہ رہے ہیں ۔ ماہ اگست کی آمد کے ساتھ جہاں وہ تصاویر و الفاظ نظروں سامنے گھوم جاتے ہیں جو تکالیف و مصائب واضح کرتے ہیں جو کہ قیام پاکستان کے وقت بزرگوں نے برداشت کی تھیں وہی پر ہمارے لیے سبق آموز بھی ہیں کہ آزادی یوں ہی نہیں مل جاتی۔ محمد ایوب صابر کا شعر ملاحظہ کیجیے
یہ دھرتی ہے مرا اعزاز میں ٹھہرا زمیں زادہ
زمیں دو گز کی خاطر وسعت ِ افلاک چھوڑ آیا

ملک بھر میں اس وقت جہاں جشن آزادی کو جوش و خروش سے منانے کی تیاری عروج پر ہے وہی پر ہمیں ادب و آداب کا بھی خیال ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ
از خدا جوییم توفیق ادب
بی ادب محروم گشت از لطف رب
” ہم خدا سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں۔ بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا ہے۔” پاکستانی پرچموں کی بہار کے ساتھ درختوں کی بہتات کا ہونا اس بات کو ثبوت ہے کہ ہم قومی سطح پر بھی قوم بننے کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔ یہ راہ طویل بھی ہے اور پر خطر بھی، ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم اس پر چلتے رہیں۔ پودے کو لگا کر اس کی دیکھ بھال کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اسے لگانا۔ 14 اگست سے اگلے دن اگر آپ دیکھیں تو وہی پرچم و جھنڈیاں جنھیں ہم سینے پر سجاے پھرتے تھے جنھیں ہم نے گھروں کی زینت بنایا ہوا تھا اور جنھیں ہم نے گلیوں بازاروں میں لگاکر حب الوطنی کا ثبوت دیا تھا اور اپنے جذبہ حب الوطنی کو تروتازہ کیا تھا ۔ خاک نشین ہوے پڑے ہیں، ہوا انھیں کبھی کوڑا کرکٹ پر لے جاتی ہے تو کبھی آندھی انھیں اڑاتے اڑاتے نالیوں میں بہا دیتی ہیں اور کبھی وہ لوگوں کے قدموں تلے روندے نظر آتے ہیں۔ یہ وطن کے پرچم کی توہین ہے اور یہ ان شہداکی بھی توہین ہے جنھوں نے وطن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے ۔ اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوے انتہائی مناسب اور موزوں وقت پر عدالت عالیہ نے قومی پرچم کی حرمت کے حوالے سے قواعدوضوابط پر مبنی فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے قرار دیا ہے کہ ہمارا قومی پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں، سبز رنگ خوش حالی، سفید رنگ اقلیتوں کے لئے امن، ہلال ترقی، پانچ کونوں کا ستارہ روشنی اور علم کی عکاسی کرتا ہے۔ پرچم چھاپنے کے دوران اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ قومی پرچم گہرا سبز حصہ تین چوتھائی، سفید حصہ ایک چوتھائی ہو، قومی پرچم کو دیگر رنگوں، بدنما پورٹریٹ یا کارٹون کی شکل میں ہرگز نہ چھاپا جائے۔ زمین پر نہ گرنے دیا جائے، پاؤں کے نیچے ہرگز نہ آئے، پرچم ایسی جگہ نہ لہرایا جائے جہاں گندا ہونے کا خدشہ ہو، قومی پرچم کو نذرآتش کیا جائے نہ قبر میں دفن کیا جائے۔ قومی پرچم کی بے حرمتی پر تین سال قید ہے۔ ملکی قوانین پر عمل درآمد کا ہونا خوش آئند بھی ہوگا اور ہمارے لیے باعث سکون بھی ۔ قوانین سارے ہی تقریبا موجود ہیں بس کمی ان پر عمل کرنے اور کروانے کی ہے ۔ اس بار ہمیں بحیثیت پاکستانی شہری اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اپنے لگاے گیے پرچم کی دیکھ بھال کریں ، اگلی صبح اپنے اردگرد نظر دوڑائیں جہاں پرچم و جھنڈیاں گری ہوئی نظر آئیں انھیں اٹھا کر صاف ستھرا کرکے محفوظ کریں ۔ حکومت کو بھی اس حوالے سے کوشش کرنی ہوگی کہ وہ اب سے بھرپور آواز اٹھاے لوگوں کو بتانے کے ساتھ انتظامیہ کو پابند کرے کہ وہ علاقوں میں مخصوص جگہوں پر ان پرچموں اور جھنڈوں کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کرے اور بعد ازاں انھیں بہ ترین طریقے سے محفوظ بنانے کا اہتمام کرے ۔

Leave a reply