آزاد کشمیر میں حالیہ احتجاج کے مظاہرے انتظامیہ اور عوام دونوں کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں یہ مظاہرے شروع میں پرامن تھے، مگر کچھ مقامات پر صورتحال پرتشدد بھی ہو گئی۔ تین پولیس اہلکار اور ایک شہری جاں بحق ہوئے جبکہ سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ یہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ احتجاج قابو سے باہر ہے اور انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
مظاہرین کے 38 نکاتی مطالبات میں بجلی، گندم اور دیگر ضروری اشیاء پر سبسڈی شامل تھی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر مطالبات پہلے ہی پورے کر دیے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر میں آج بجلی اور آٹا سستی دستیاب ہیں۔ باقی رہ جانے والے مسائل بنیادی طور پر قانون سازی کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں، جس کے لیے وقت درکار ہے۔ اس کے باوجود، کچھ لوگ سیاسی مقاصد کے تحت احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں، جس سے عوامی مسائل کا اصل مقصد دھندلا گیا ہے۔
اس احتجاج میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ تنظیم کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا موقف ہے کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے اور پاکستان یا بھارت دونوں کی مداخلت سے بچنا چاہیے۔ JKLF کے رہنما عوامی ایکشن کمیٹی کے ذریعے مظاہروں کی قیادت کر رہے ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ عوامی مفاد کے اصل مسائل پہلے ہی حل ہو چکے ہیں۔ باقی رہ جانے والے مسائل قانون سازی کے ذریعے حل ہوں گے۔ بعض حلقے JKLF کی قیادت میں احتجاج کو سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ JKLF اور دیگر سیاسی گروہ پرامن اور قانونی راستے اپنائیں تاکہ احتجاج صرف ہنگامہ یا سیاسی مفاد کا ذریعہ نہ بنے۔
مظاہرین میں شامل کچھ گروہ عوام کو بلیک میل کر کے احتجاج میں شامل کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے عوام کے حقیقی مسائل پس پشت رہ گئے ہیں۔ سڑکوں پر شور مچانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ پرامن مذاکرات اور قانونی طریقے ہی اصل حل ہیں۔ حکومت اور مظاہرین کو چاہیے کہ وہ عوامی مفاد میں سنجیدہ اقدامات پر توجہ دیں۔
حکومت پاکستان نے فوری اقدامات کیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی، متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کی اور مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی۔ حکومت کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کے نوے فیصد مطالبات تسلیم کیے جا چکے ہیں اور باقی پر بات کے لیے بھی تیار ہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی پرامن مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جعلی خبروں سے عوام کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ احتجاج صرف ہنگامہ پیدا کر رہا ہے اور عوام کے مسائل حل نہیں کر رہا۔
بھارتی میڈیا نے مظاہروں کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ پاکستانی حکام نے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ افواہوں اور پروپیگنڈے پر دھیان نہ دیں اور حکومت کی اقدامات پر اعتماد رکھیں۔
زیادہ تر مطالبات پہلے ہی پورے ہو چکے ہیں اور باقی مسائل قانون سازی اور عملی اقدامات سے حل ہو سکتے ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع اور علاقے میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ احتجاج نے عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مظاہرین اور سیاسی گروہ پرامن، قانونی اور شفاف طریقے اپنائیں۔
آزاد کشمیر میں احتجاجی مظاہرے وقت کا ضیاع اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں رکاوٹ ہیں۔ یہ عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ حکومت اور مظاہرین کو چاہیے کہ پرامن مذاکرات اور قانونی اقدامات پر توجہ دیں۔ یہی واحد راستہ ہے جو انسانی جانوں کو محفوظ رکھنے اور علاقے میں دیرپا امن قائم کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔