آزادی، ایک جذبہ، ایک جنون تحریر:محمد نعیم شہزاد

0
65

آزادی، ایک جذبہ، ایک جنون
محمد نعیم شہزاد

آزادی نام ہے ایک جذبے کا، ایک لگن ہے جو قلب و روح کو مضطرب رکھتی ہے اور جابر کے سامنے کلمہ حق بیان کرنے کی تڑپ پیدا کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ اور پیار میں سب جائز ہے۔ آزادی جنگ اور پیار دونوں کے جذبات کا دلنشین مرکب ہے، یہ محبت ہے اپنے وطن کی، یہ جنگ ہے باطل کو مٹانے کی اور اپنے وطن کا پھریرا لہرانے کی۔ یہ جذبہ سب جذبات پر غالب ہے اور وطن کی محبت تمام محبتوں پر حاوی ہے۔ آزادی متاعِ عزیز ہے مگر اس کے حصول کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے؟ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آزادی کے لیے سچے جذبے اور لگن کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ لگن ہی ہے جو اپنا آپ بھلا دیتی ہے اور صرف آزاد فضاؤں میں بسنے کی تمنا بے چین رکھتی ہے۔ دن، رات ایک ہی لگن میں مگن آزادی کے پروانے جان تک دینے سے دریغ نہیں کرتے اور اپنے خون سے آزادی کی داستان کو امر کر دیتے ہیں ۔

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

مملکت خداداد پاکستان آزادی کے 73 ویں جشن کی تیاری میں ہے۔ یہ وہی ریاست ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ پاکستان بن تو گیا ہے مگر قائم نہ رہ سکے گا۔ تحریک آزادی پاکستان کے راہنما محمد علی جناح کے الفاظ آج بھی کان میں گونجتے ہیں کہ کوئی طاقت بھی پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی اور ہم اپنی آنکھوں سے اس عظیم قائد کی بصیرت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
وسائل کی کمی کے باوجود، جان و مال کے نقصان کے بعد لٹے پھٹے کارواں کو آزاد وطن میں آباد کر کے اس عظیم شخص نے اسی جذبہ حریت کے تحت یہ الفاظ ادا کیے جن کی صداقت پر آج دنیا شاہد ہے۔ اس عالیشان جذبہ کی بنیاد دو قومی نظریہ پر استوار تھی۔ یہ ایک ایسی مضبوط بنیاد ہے جس پر تعمیر وطن ممکن ہوئی۔ جذبوں کی صداقت کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

آزادی کے 73 برسوں میں ارض وطن نے مختلف موسموں کے رنگ دیکھے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، طاقت اور اختیار کے حصول کی جنگ، اقرباء پروری، بددیانتی اس ملک کے لیے ناسور بنی رہی اور اس کی ترقی کی راہ میں حائل رہی مگر ارض پاکستان نے خدائے ذوالجلال کی رحمت و عنایت سے وہ کمال پایا جو کسی اور کو حاصل نہ ہوا۔ آج بڑی بڑی طاقتیں پاکستان سے دوستی کی خواہاں ہیں اور پاکستان سے اچھے تعلقات بنانا چاہتی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دفاعی اور تجارتی معاہدے کیے جاتے ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو گوادر پورٹ کی شکل میں ایک عظیم الشان انعام سے نوازا ہے۔ اور ریاست پاکستان اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے مگر اک کسک باقی ہے، پاکستان تقسیم ہند کے فارمولے اور نظریہ پاکستان کے مطابق ابھی اپنے وجود کی تکمیل کا منتظر ہے۔ کشمیر جنت نظیر پر جابر بھارت قابض ہے اور ہر ستم روا رکھے ہوئے ہیں۔ 5 اگست 2019 کو آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر کی الگ حیثیت کا انکار کرتے ہوئے اسے اپنا اٹوٹ انگ ظاہر کیے ہوئے ہے۔ اس انگ بے رنگ کا ٹوٹنا ہے اچھا جس کا وجود زمانے بھر کے لیے سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ معنی نہیں رکھتا۔ 73 برسوں میں تحریک آزادی کشمیر نےبھی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے، ہواؤں کے بدلتے رخ، اپنے بیگانوں کی کج ادائی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی سماعت سے محرومی عام رہی مگر جب نوجوان آزادی کے جذبے سے معمور ہوں اور زبان حال سے کہہ رہے ہوں

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

تو ان کے جذبوں کو مات نہیں دی جا سکتی۔ سال بھر سے وادی جنت نظیر میں بدترین لاک ڈاؤن ہے، ذرائع مواصلات بند ہیں، مگر دنیا میں بھارتی دہشت گردی کی بازگشت گونجتی ہے۔ کشمیری حریت رہنماؤں سے دنیا اظہار ہمدردی کرتی ہے اور ان کو ہیرو مانتی ہے۔ راستے کھل رہے ہیں، منزل نظر آ رہی ہے پاکستان نے اپنا نیا نقشہ جاری کر کے بھارت کے اٹوٹ انگ کا نظریہ توڑ دیا ہے شاہراہ کشمیر کا نام بدل کر

کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا

تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت

دیواریں گر رہی ہیں، راستے کھل رہے ہیں اور انقلاب برپا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ زمانہ تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔

یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں

کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

در و دیوار آزادی کے نغموں سے گونج رہے ہیں، فضائیں معطر ہیں افق سے آزادی کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے مگر ہم ہزیمت کا شکار کیوں ہیں، کیوں اپنے وطن کے محبان کو پابند سلاسل کرتے ہیں۔ اغیار تو جان کے دشمن تھے ہی اپنے تو بیگانوں جیسی روش پر نہ اتریں ۔ چمن میں بہار کی آمد ہے مگر نغمہ سرا بلبلیں پنجروں میں بند ہیں۔ کشمیر میں روز اٹھتے لاشوں کو دیکھنے سے محروم بصارتوں کو وطن پرستی جرم نظر آتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے مگر انسانی رویے یاد رکھے جاتے ہیں۔ محسنین کی جگہ زندان نہیں بلکہ ان کا مسکن آزاد وطن کی آزاد فضائیں ہیں۔ آزادی کے متوالوں کی آزادی بحال کی جائے اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ شامل کرنے دیا جائے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب ہم حقیقی اور مکمل آزادی کا سورج دیکھیں گے۔

نہ ہوگا رائیگاں خون شہیدان وطن ہرگز

یہی سرخی بنے گی ایک دن عنوان آزادی

Leave a reply