برصغیر کےعظیم گلوکار مہدی حسن جن کی آواز آج بھی زندہ ہے

خان صاحب مہدی حسن نے کل 441 فلموں کے لیے گانے گائے
singer

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

مہدی حسن

برصغیر کے عظیم گلوکار مہدی حسن 18 جولائی 1927کوراجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد اور چچا دْھرپد گائیکی کے ماہر تھے۔ انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی۔خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولھویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

1947ء میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ نقلِ وطن کر کے پاکستان آ گئے اور پنجاب کے ایک شہر چیچہ وطنی میں محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا انھوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر میکینک اور اس کے بعد ٹریکٹر کے میکینک بن گئے، لیکن رہینِ ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا ریاض جاری رکھا-

مہدی حسن پچپن سے ہی گلوکاری کے اسرار و رمُوز سے آشنا تھے مگر اس سفر کا باقاعدہ آغاز 1952ء میں ریڈیو پاکستان کے کراچی سٹوڈیو سے ہوا۔ اس وقت سے اپنے انتقال تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی، غیر فلمی گیت اور غزلیں گا ئیں 1956ء میں ایک طویل جدو جہد کے بعد مہدی حسن کو فلمی گلوکار بننے کا موقع ملا۔

فلم کے لیے مہدی حسن نے جو پہلا گیت ریکارڈ کروایا وہ کراچی میں پاکستانی فلم ’’ شکار‘‘ کے لیے تھا۔ شاعر یزدانی جالندھری کے لکھے اس گیت کی دُھن موسیقار اصغر علی، محمد حسین نے ترتیب دی تھی۔ گیت کے بول تھے: ’’ نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے‘‘۔ اسی فلم کے لیے انہوں نے یزدانی جالندھری کا لکھا ایک اور گیت ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے۔ پھر آگیا کوئی رخِ زیبا لیے ہوئے‘‘ بھی گایا تھا۔

خان صاحب مہدی حسن نے کل 441 فلموں کے لیے گانے گائے اور گیتوں کی تعداد 626 ہے۔ فلموں میں سے اردو فلموں کی تعداد 366 ہے جن میں 541 گیت گائے جب کہ 74 پنجابی فلموں میں 82 گیت گائے۔

انہوں نے 1962ء سے 1989ء تک 28 سال تک مسلسل فلموں کے لیے گائیکی کی تھی۔فلمی گیتوں میں ان کے سو سے زیادہ گانے اداکار محمد علی پر فلمائے گئے۔ اس کے علاوہ مہدی حسن خان صاحب ایک فلم ’’شریک حیات‘‘ 1968ء میں پردہ سیمیں پر بھی نظر آئے۔

مہدی حسن کو بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں 9 نگار ایوارڈ،تمغہ امتیاز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل تھے۔

مہدی حسن کو ملنے والے 9 نگار ایوارڈز کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں ۔

سال 1964۔۔۔۔۔۔۔ فلم فرنگی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1968۔۔۔۔۔۔۔ فلم صائقہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1969۔۔۔۔۔۔۔ فلم زرقا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1972۔۔۔۔۔۔۔ فلم میری زندگی ہے نغمہ۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1973۔۔۔۔۔۔۔ فلم نیا راستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1974۔۔۔۔۔۔۔ فلم شرافت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1975۔۔۔۔۔۔۔ فلم زینت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1976۔۔۔۔۔۔۔ فلم شبانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ

سال 1977۔۔۔۔۔۔۔ فلم آئینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نگار ایوارڈ۔

مہدی حسن کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 1985ء کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور علاوہ ازاں تمغہ امتیازاور ہلال امتیازسے نوازا گیا۔1979 ء میں انہوں نے جالندھر (انڈیا) میں کے ایل سہگل ایوارڈ حاصل کیا۔ 1983ء میں نیپال میں گورکھا دکشینا باہو ایوارڈ حاصل کیا اور جولائی 2001 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا ۔ لیکن مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بے پناہ مقبولیت اور محبت تھی جو انہیں عوام کے دربار سے ملی۔ پاک و ہند سے باہر بھی جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی ۔بھارت میں اُن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہرہے کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں مہدی حسن کا انتقال 13 جون 2012ء کو کراچی میں ہوا۔ وہ کراچی ہی میں آسودہ خاک ہیں-

Comments are closed.