کچھ لوگوں کی حوصلہ افزائی انسان کو بہت تقویت دیتی ہے، آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن کو تیز کرتی ہے۔ جب میں پہلی مرتبہ اظہر بھائی سے ملی ایک نو آموز رائٹر تھی جس کی اکا دکا تحریریں کسی میگزین میں شائع ہوئی تھیں۔ لیکن ان تحریروں پر تبصرہ کرنا، مختلف آئیڈیاز دینا کہ کن موضوعات پر بچوں کے لیے لکھنا چاہیے۔ یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کرنا کہ میں چاہتا ہوں میری بیٹی آپ کی طرح بنے۔۔۔ یہ لفظ میری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو اس شخص کے الفاظ تھے جو خود بہت بڑا ادیب، معاشرے میں ایک بہت اچھی حیثیت رکھتا تھا۔ مجھے جب ایوارڈ ملا تو انہوں نے مجھے اسلام آباد سے لاہور آنے کا حکم دیا کہ اتنی جلدی کوئی بڑا پروگرام تو ممکن نہیں لیکن کوئی چھوٹی موٹی تقریب کر لیں گے۔۔ قذافی اسٹیڈیم کی ای لائبریری میں ہونے والی وہ تقریب بھی کوئی چھوٹی سی نہ تھی۔۔ لاہور کے علاوہ دور دور سے بھی بہت سے ادیبوں نے شرکت کی تھی۔۔۔ اور انہوں نے مجھے اتنا بڑا گلدستہ دیا تھا کہ آج تک زندگی میں ویسا گلدستہ دوبارہ نہیں ملا۔۔۔۔
پھر پچھلے سال جب میں آخری مرتبہ لاہور چلڈرن لٹریری سوسائٹی کی تقریب میں گئی تھی ۔۔ ایک حادثے کی وجہ سے (اس حادثہ ہی کہنا چاہیے) میں تقریب میں جب پہنچی جب تقریباً مہمان جاچکے تھے لیکن اظہر بھائی ابھی بھی تھے۔۔۔
یا پھر کچھ عرصہ قبل جب ان کی علالت کا پتا چلا تو میں نے انہیں میسج کیا ۔۔ تب ہشاش بشاش آواز میں جواب دیا تھا کہ ارے کچھ نہیں! بیمار ہو گیا تھا اب تو آفس آنا بھی شروع کردیا۔۔ ابھی بھی آفس میں ہی ہوں۔۔۔
آج صبح اچانک یہ خبر سنی تو پھر فیس بک کھولنے سے دل ڈر رہا تھا۔۔ کاش یہ سچ نہ ہو۔۔
اتنی دور چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بہترین میزبانی کرے، جیسے آپ دنیا میں سب کے لیے مہربان تھے خدائے ذوالجلال اس سے بڑھ کر آپ پر مہربان ہو۔۔
خدا آپ کے بچوں اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
آپ ہمیشہ ہماری دعاؤں میں رہیں گے۔۔
اللہ آپ سے راضی ہو ۔۔
خدا حافظ ۔۔۔
دل غم سے بھرا ہوا ہے ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون