اوچ شریف (نامہ نگارحبیب خان)باغی ٹی وی کی تحقیقاتی رپورٹ، کرپشن میں ملوث سابق انچارج پرنسپل مستقل تعیناتی سے محروم
تفصیلات کے مطابق گورنمنٹ صادق عباس گریجویٹ کالج ڈیرہ نواب صاحب میں مالی بدعنوانیوں، اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں کافی عرصے سے زیر گردش تھیں، سابق انچارج پرنسپل جو ہائی کورٹ کےحکم پر مس کنڈکٹ کی بنیاد پر عدلیہ سے نکالے گئے سابق جج محمد شاہد سراج پر کالج فنڈز میں خردبرد، غیر قانونی بھرتیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات عائد تھے۔
باغی ٹی وی کی جانب سے کی گئی تحقیقاتی رپورٹنگ کے نتیجے میں محمد شاہد سراج مستقل پرنسپل بننے میں ناکام رہے۔ ان کی جگہ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے میرٹ پر ایسوسی ایٹ پروفیسر شاہد حسین مغل کو تین سال کے لیےمستقل پرنسپل تعینات کر دیا ہے۔ اس فیصلے کو اساتذہ، وکلاء، والدین، طلبہ و طالبات اور شہریوں نے سراہا اور امید ظاہر کی کہ ادارے میں بہتری آئے گی۔
یاد رہے کہ محمد شاہد سراج پر امتحانی فیس اور رجسٹریشن فنڈز میں لاکھوں روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ شواہد کے مطابق 28 مارچ 2024 کو چیک نمبر 8806943924 کے ذریعے 2 لاکھ 64 ہزار روپے نکلوائے گئے جو کالج کے مالیاتی ریکارڈ میں درج نہیں۔ مزید برآں سیکنڈ شفٹ میں جعلی داخلے دے کر ہر طالبعلم سے 45 ہزار روپے وصول کیے گئے جو براہ راست شاہد سراج کی جیب میں گئے۔
ٰیہ خبر بھی پڑھیں
ڈیرہ نواب صاحب:عدلیہ سے نکالے گئے سابق جج کی بطور انچارج پرنسپل کرپشن کی ہوشربا داستان
کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی، سابق جج کی بدولت ڈیرہ نواب کالج کیسے تباہ ہوا؟
محمد شاہد سراج نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی بیٹی عائشہ ارم کو میرٹ لسٹ میں 51ویں نمبر پر ہونے کے باوجود CTI کے طور پر بھرتی کیا۔ حیران کن طور پر انٹرویو کے دوران وہ خود اپنی بیٹی کا انٹرویو لینے والے پینل میں شامل تھے۔ اسی طرح ان کی دوسری بیٹی فاطمہ شاہد کے امتحانات میں وہ خود انویجیلیٹر (RI) کے طور پر تعینات رہے جو سرکاری قواعد کی صریح خلاف ورزی تھی۔
کالج کے جناح کیمپس میں قیمتی درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور فروخت کی گئی، جس کے لیے کسی قانونی نیلامی کا انعقاد نہیں ہوا۔ مزید برآں 400 کنال اراضی پر ناجائز قبضے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ کالج میں پینے کے پانی کی سہولت ناپید، کھیلوں کی سرگرمیاں معطل اور تعلیمی ماحول شدید متاثر ہو چکا تھا۔
طلبہ، والدین اور اساتذہ مسلسل ان بے ضابطگیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے، تاہم ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور انٹی کرپشن اتھارٹی کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی نہ کی گئی۔ بالآخر باغی ٹی وی کی تحقیقات کے بعد محمد شاہد سراج چھٹی بار مستقل پرنسپل بننے میں ناکام رہے، جو کرپشن کے خلاف ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نئےتعینات ہونے والے پرنسپل پروفیسر شاہد حسین مغل سابقہ کرپشن کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں گے؟ یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ سابق انچارج پرنسپل کی ایک مضبوط لابی اب بھی متحرک ہے۔ اگر نئے پرنسپل کو اعلیٰ حکام کی مکمل حمایت حاصل ہو تو وہ درج ذیل اقدامات کے ذریعے کرپشن کے خاتمے میں کامیاب ہو سکتے ہیں:
# تمام مالیاتی اور انتظامی ریکارڈز کا تفصیلی جائزہ
#غیر قانونی بھرتیوں اور جعلی داخلوں کی فہرست مرتب کرنا
#متاثرہ طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کے بیانات ریکارڈ کرنا
#شفاف تحقیقات اور دباؤ کا سامنا کرنا
#انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور اعلیٰ حکام سے مکمل تعاون حاصل کرنا
شہری حلقوں ،اساتذہ اور طلبہ کو امید ہے کہ پروفیسر شاہد حسین مغل کی قیادت میں ادارے میں شفافیت، میرٹ اور تعلیمی معیار کو بحال کیا جائے گا۔لیکن آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو گا کہ کیا نئے پرنسپل سابقہ بدعنوانیوں کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھا پاتے ہیں یا نہیں۔