بالی جٹی کا یوم وفات

8 جون 1996: یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چھلانگ لگا کر سٹیج پر آتیں تو تھیٹر کا پنڈال بڑھکوں، نعروں ، تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا ۔ تھیٹر کے ناظرین نے انہیں ببر شیرنی کا خطاب دیا تھا۔
یہ تھیں بالی جٹی جن کا اصل نام عنایت بی بی تھا۔ وہ 1937ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔ 1958ء میں انہوں نے پنجاب کے لوک تھیٹروں سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا جو میلوں ٹھیلوں پر شو کرتے تھے ۔ انہوں نے ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، پیر مرادیا، ویر جودھ ، سلطانہ ڈاکو، قتل تمیزن اور نور اسلام وغیرہ متعدد ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان ڈراموں میں وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے کئی گانے لوک گیتوں کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے عالم لوہار، عنایت بھٹی جیسے فن کاروں کے مقابل پرفارم کیا۔ ان کا گایا ایک ڈوئیٹ بہت مشہور ہوا جو انہوں نے اپنے تھیٹر کے فنکار امین کے ساتھ گایا تھا۔ جس کے بول تھے
"آ لے کنجیاں رکھ لے سرہانے، چلی ہاں میں پیکیاں نوں”۔
مختلف تھیٹروں سے وابستہ رہنے کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی ’’شمع تھیٹر‘‘ بھی بنایا تھا جو بارہ سال چلا ، پھر کئی مسائل کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔

1967ء میں ریلیز ہونے والی ایک پنجابی فلم منگیتر میں بھی انہوں نے منور ظریف کے ساتھ اداکاری کی تھی۔

بالی جٹی کی آواز بہت گرج دار اور بلند تھی جو تھیٹر کی دنیا میں ان کی مقبولیت کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ وہ مرزا صاحباں گانے میں کمال رکھتی تھیں۔
کسی زمانے میں معاشرتی قیود کی وجہ سے زنانہ کردار بھی مرد کرتے تھے لیکن یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ بالی جٹی حسب ضرورت مردانہ کردار بھی کرتی رہیں۔

بالی جٹی کا 8 جون 1996ء کو انتقال ہوا اور سبزہ زار لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کی گئیں۔

گلوکارہ ریحانہ اختر بالی جٹی کی بہو تھیں اور گلوکارہ صائمہ اختر پوتی ہیں جو ان کی گائیکی کا انداز زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کا کوئی بیٹا گلوکاری کی طرف نہیں آیا لیکن کچھ گلوکار خود کو ان کا بیٹا بتا کر روزی کما رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Shares: