بالی کی مسکراہٹ — اسامہ منور

کلاس میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے میں نے اُن بچوں کو کھڑا کیا جو آج بھی یونیفارم پہن کر نہیں آئے تھے. مختلف لائنوں سے سات بچے کھڑے ہوگئے اور ان بچوں میں آج پھر بالی(اقبال) بھی شامل تھا. میں سب بچوں کے پاس باری باری جا کر ان سے یونیفارم اور جوتوں کے متعلق پوچھ رہا تھا. سب بچے کوئی نہ کوئی جواب دے کر اپنے طور مجھے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں انھیں بیٹھنے کا کہہ کر آگے بڑھ رہا تھا. مجھے غصہ نہیں آ رہا تھا بلکہ دکھ ہو رہا تھا کہ بچے روزانہ ہی کوئی نیا بہانہ بنا کر سکول آ جاتے ہیں، کسی کے پاس ٹائی نہیں تو کوئی بیلٹ کے بغیر ہے. کسی کی یونیفارم پریس نہیں ہوئی تو کوئی رنگ برنگی پینٹ اور شوخ جوتوں کے ساتھ آیا ہے. کسی کا منہ نہیں دھلا تو کوئی بالوں کو سلجھائے بغیر ہی سکول آ گیا ہے.

یہ کام ان کے والدین کا تھا جو سکول میں اساتذہ کو کرنا پڑتا تھا اور اسی میں کلاس کا بہت سارا وقت ضائع ہو جاتا تھا.

اگر والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کی تربیت کا بیڑہ اُٹھا لیں تو پاکستان کا مستقبل سنور سکتا ہے.

میں یہ باتیں سوچتا ہوا بالی کے پاس جا پہنچا.بالی حسب معمول سر جھکائے کھڑا گہری سوچوں میں گُم تھا. میں نے بالی سے یونیفارم کے متعلق پوچھا تو بالکل خاموش رہا. اس کا سر اُٹھا کر میری طرف نہ دیکھنا مجھے اور پریشان کر گیا. خیر میں نے تین دن کی وارننگ دی کہ سب بچے اپنی یونیفارم مکمل کریں تاکہ کلاس کے نظم و ضبط کو بہتر بنایا جا سکے.

سکول کا وقت ختم ہوا تو میں گھر آ گیا. کچھ دنوں تک میرے چچازاد کی شادی تھی جس میں سب گھر والے ہی شامل ہو رہے تھے. بیگم نے مجھے بھی کہہ دیا کہ جمعہ والے دن شاپنگ کرنی ہے اور میں جانتا تھا کہ ہم تینوں کی شاپنگ پر ایک پوری تنخواہ لگ جانی ہے. شاید ہماری پوری قوم کو ہی فضول خرچی کی عادت پڑ گئی ہے. ایک ہزار کی جگہ دس ہزار کا خرچہ کرنا معمول بن گیا ہے.

میں اپنی بیوی کے ساتھ شاپنگ کے متعلق باتیں کر رہا تھا جب میرا بیٹا کمرے میں داخل ہوا، اندر آتے ہی اس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا! "بابا اس دفعہ شادی پر میں نے تھری پیس لینا ہے اور ساتھ وہ والے جوتے جو اس دن بازار میں دیکھے تھے…….. اور…….. اور ساتھ گھڑی بھی، عینک بھی اور پیسے بھی لینے ہیں”.

میں اپنے بیٹے کی باتیں سن کر مسکرا دیا اور اس سے وعدہ کیا کہ جو وہ بولے گا لے دوں گا.

رات کو سوتے سے پہلے میں نے اندازہ لگایا کہ تو پتا چلا کہ شادی کی شاپنگ پر چالیس ہزار لگ رہا ہے. یہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی.

اگلے دن معمول کے مطابق سکول پہنچا. مسکراتے ہوئے کلاس میں داخل ہوا تو پوری کلاس کھڑی ہو گئی، حالانکہ میں نے سب کو اپنے لئے کھڑا ہونے سے منع کیا تھا. میں نے بیٹھنے کا کہا اور پھر یونیفارم کے لیے چیکنگ شروع کی اور یہ بات دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ پوری کلاس یونیفارم میں تھی مگر اس بات کا دکھ ہوا کہ بالی آج بھی یونیفارم کے بغیر تھا. میں اس پاس گیا اور خوب باتیں سنائیں. سخت سردی تھی مگر بالی کے پاس نا تو جرسی تھی اور نا ہی بند جوتا تھا.

بالی میری باتیں سن کر بلک بلک کر رو دیا. میں نے اسے کلاس میں پہلی دفعہ یوں روتے دیکھا تھا. میرا دل پسیج گیا اور آنکھیں بھر آئیں. بوجھل دل سے لیکچر دیا اور پھر اگلی کلاس میں چل دیا.

میں سارا دن بالی کے متعلق ہی سوچتا رہا. وہ میرے بیٹے کی عمر کا ہی تھا. چھٹی کے فوراً بعد میں چپکے سے بالی کے پیچھے ہو لیا کہ دیکھوں وہ کہاں جاتا ہے.

سکول کے سامنے والی سڑک کو پار کر کے بالی سر جھکائے کچے رستے پر چل رہا تھا. اس کے قدم بوجھل لگ رہے تھے. اسے پیدل چلتے بیس منٹس ہو چکے تھے جب وہ رکا اور ایک حویلی کے اندر داخل ہو گیا. میں باہر انتظار کرتا رہا مگر طویل انتظار کے بعد بھی وہ باہر نہ نکلا تو مجھے تشویش ہوئی. کیونکہ یہ گھر نہیں لگ رہا تھا. میں گاڑی کھڑی کر کے گیٹ کے اندر داخل ہوا.

تبھی مجھے اندر سے ایک بابا جی ملے اور آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے انھیں بالی کے متعلق پوچھا.

بزرگ نے مجھے دائیں طرف جا کر بالکل سیدھا جانے کا کہا.

میں جلدی جلدی اس سمت ہو لیا. تبھی میرا دھیان اس طرف گیا جہاں پر کچھ بچے بھوسہ پیک کر رہے تھے، ان میں ایک بالی بھی تھا. جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے بھوسے کے بنڈل بنا رہا تھا. اسے دیکھتے ہی مجھے اپنا بیٹا یاد آ گیا اور میری آنکھیں بھیگ گئی.

پوچھنے پر پتا چلا کہ بالی اکلوتا بھائی ہے، باپ کی وفات ہو چکی ہے اور ماں کچھ عرصہ سے بیمار ہے. بالی چوہدری کے ڈیرے پر کام کرتا ہے اور بدلے میں چوہدری ان کے چولہے کا خیال رکھتا ہے.

یہ سن کر مجھ سے مزید وہاں رکا نہ گیا اور جلدی سے گاڑی میں آ بیٹھا. میرا اونچی اونچی رونے کو جی چاہ رہا تھا. ہمارے ارد گرد ایسے کتنے بچے موجود تھے مگر ہم بے حس ہو چکے تھے.

گھر پہنچ کر میں نے بیگم سے پوچھا کہ اگر شادی پر نئے کپڑے نہ لیے جائیں تو گزارا ہو جائے گا؟؟

بیگم نے معمولی سے استفسار کے بعد ہاں میں سر ہلا دیا اور کہا کہ ہمارے پاس بہت اچھی حالت میں کپڑے اور جوتے موجود ہیں. بیٹے کو بھی میں نے جیسے تیسے منا لیا اور پھر بینک چلا گیا. وہاں سے بازار جا کر کچھ نئے گرم کپڑے، جوتے یونیفارمز اور کھانے کے لیے ایک ماہ کا راشن خریدا اور بیگم بیٹے کو لے کر بالی کے گھر جا پہنچا. بالی مجھے اپنے گھر دیکھ کر ششدر رہ گیا. میری بیگم نے سارا سامان بالی کی اماں کے حوالے کیا اور ہر ماہ راشن پہنچانے کا وعدہ کر کے ہم لوگ واپس آ گئے.

اگلے دن میں سکول پہنچا اور کلاس میں داخل ہوتے ہی میری نظر پہلی لائن میں بیٹھے بالی پر پڑی. جو نئی یونیفارم اور چمکدار جوتا پہنے ہوئے بیٹھا مسکرا رہا تھا، اور آج پہلے دن مجھے معلوم ہوا کہ استاد کا کام صرف کتابیں پڑھانا نہیں بلکہ بچوں کو پڑھنا بھی ہے

Comments are closed.