باری عمران خان کی ہے ، تحریر: نوید شیخ

0
41

گزشتہ روز وہ ملاقات ہوہی گئی جس بارے حکومت منتیں مرادیں مانگ چکی تھی ۔ دعائیں کر رہی تھی کہ کسی طرح یہ رک جائے ۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ یوں کل شہباز شریف اور ق لیگ کے درمیان بات چیت کے تین دور ہوئے ۔ اس سے پہلے چوہدری برادران کی مولانا سے ملاقات ہوئی تھی تو اس کے دو دور ہوئے تھے ۔ جس آپ کل کی ملاقات کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

۔ میرے خیال سے اگر عمران خان کسی کی فون کال کروانے میں ناکام رہے تو یہ کل والی ملاقات کامیاب ہوگئی ہے ۔ اور آنے والے دو سے تین ہفتوں میں اس ملاقات کا رزلٹ بھی سب کے سامنے آجائے گا ۔ ۔ کیونکہ ملاقات کے پہلے دور میں دونوں جانب کی قیادت شریک ہوئی۔ ۔ دوسرے دور میں شہباز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی شریک ہوئے۔ ۔ تیسرے دور میں شہباز شریف، شجاعت حسین، پرویزالٰہی، سعد رفیق، ایاز صادق بھی شریک ہوئے، بعد ازاں رانا تنویرکو بھی ملاقات میں شریک کرلیا گیا۔ یہ جو تین دور ہوئے ہیں اس حوالے سے میرے اندازہ ہے کہ ق لیگ کی جانب سے بھی فرمائشوں اور مطالبوں کی ایک لمبی لسٹ ہوگی ۔ کیونکہ حکومت جیسی بھی ہو اسکی قربانی دینا آسان نہیں ہوتا ۔ سب سے پہلے تو ق لیگ نے اس بات کی یقین دہانی مانگی ہوگی کہ ان کے خاص حلقے جیسے گجرات وغیرہ سے ن لیگ اپنے امیدوار بلدیاتی الیکشن اور جنرل الیکشن میں نہ کھڑے کرے ۔ پھر یہ بھی طے کیا ہوگا کہ اگر اب وہ اپوزیشن کی مدد کرتے ہیں تو مستقبل میں حکومت میں ان کو کیا کردار دیا جائے گا ۔ کیا پتہ ان کی سب سے بڑی خواہش کہ وزارت اعلی پنجاب کا تاج ایک بار پھر ان کے سر پر سجے یہ بھی زیر بحث آیا ہو ۔ کیونکہ سیاست ممکنات کا نام ہے ۔ اس میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ میرے حساب سے جوبات مجھے سمجھ آتی ہے کہ ن لیگ کا زیادہ فوکس اسی لیے پی ٹی آئی کے اندر نقب لگانے تھا ۔ کیونکہ اس سے اتحادیوں کی فرمائشوں کو بھی پورا نہیں کرنا پڑنا تھا۔ اور مقصد بھی بآسانی حاصل ہوسکتا ہے ۔ مگر دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ اتحادیوں کو بھی توڑ لیا جائے تو کام پکا ہوجائے گا ۔ کیونکہ تحریک عدم اعتماد بڑا ہی سوچ سمجھ کر اور جب نمبر گیم پوری ہوجائے تو پھر لانی ہوگی ۔ یقینی طور پر حکومت بھی اپنے ہاتھ پاوں مار رہی ہوگی ۔

۔ خیر اب تو بہت دیر ہو چکی اور انہوں نے تین سال میں ملک کا وہ بیڑہ غرق کر دیا ہے جو تین دشمن ممالک مل کر بھی نہیں کر سکتے تھے، نہ جنگ میں اور نہ زمانہ امن میں۔ حکومت چلانے میں بھی عمران خان کرکٹ کے میدان والے طریقے آزماتے رہے ہیں جس سے مزید انتشار پھیلتا رہا ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ انہوں نے کچھ دن پہلے دکھایا جب دس وزیروں کی نمبرنگ کر کے وفاق کے باقی پینتالیس وزیروں مشیروں کو چیخنے پر مجبور کر دیا کہ ہمیں کیوں نکالا؟ یوں میڈیا کی حد تک دیکھا جائے اور حکومت ممبران اسمبلی کے تاثرات کو سنا جائے تو فی الحال لگ تو ایسا ہی رہا ہے کہ اپوزیشن نے معرکہ سر کر لیا ہے اور عنقریب رزلٹ مل جائے گا ۔

۔ اس حوالے سے خواجہ آصف تو کہہ رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بجائے عام انتخابات ہو جائیں گے۔ ۔ اسلیے وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام وزراء کافی غصے میں دیکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں عمران خان نے اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے مسائل کی جڑ کو اٹھارویں ترمیم قرار دے دیا ہے ۔ تو شہباز شریف کی چوہدری برادران سے ملاقات کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی شہباز شریف کو چائے پلائیں گے، اس سے زیادہ انہیں ق لیگ سے کچھ نہیں ملے گا۔ اب یہ وہ بات انھوں نے ایسے وثوق سے کی ہے جیسے فواد چوہدری ق لیگ کے بھی ترجمان ہوں ۔ ۔ اسلیے لوگ اب کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان کے لیے زندگی کا سب سے مشکل دور گزر رہا ہے کیونکہ خبریں بالکل اچھی نہیں ہیں ۔ اور عنقریب شاید آپکو عمران خان کے منہ سے سننا پڑے جائے کہ مجھے کیوں نکالا ؟؟؟۔ پھرایک اورجانب میں آپ سب کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کے دور میں یوسف رضاگیلانی کی حکومت کو چار ہونے کوآئے تو وہ گھر گئے ۔ پھر نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ اور اب عمران خان کو بھی چار سال ہونے والے ہیں ۔ ۔ جس کے باعث وزیراعظم کو واقعی راتوں کو نیند نہیں آ رہی ہوگی۔ کیونکہ جو ان کے بیانات آرہے ہیں وہ اقتدار سے نکلنا نہیں چاہتے۔

۔ سچ یہ ہےکہ ۔۔۔ آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ ۔۔۔ ٹی وی پروگرام میں یا روز کسی نہ کسی بہانے میڈیا پر آکر عمران خان ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر اپنے سیاسی مخالفین پر ملبہ ڈالنے کے حربے اب تک استعمال کررہے ہیں ۔ جبکہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت عمران خان وزیراعظم بنے ہیں، اس نظام میں آئین نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت کا تعین بھی کر دیا ہے، اسی کا نام جمہوریت ہے۔ مگر عمران خان ، شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کرتے تو قومی اسمبلی کا ایوان نامکمل ہے اور موجودہ نظام حکومت ڈکٹیٹرشپ کی ایک بدترین صورت میں ملک پر مسلط ہے۔ شہبازشریف کو اپوزیشن لیڈر نہ ماننا، آئین پاکستان سے انحراف کے مترادف ہے۔۔ وزیراعظم عمران خان طالبان ہوں یا پھر پشتون تحفظ موومنٹ والوں سے تو ملاقات، مذاکرات اور ہاتھ ملانے کو تیار ہیں، جو مالی اور اخلاقی جرائم کے ساتھ ساتھ قتل، ڈاکہ زنی اور دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہیں، مگر اپوزیشن کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لئے نہیں۔۔ یاد رکھیں شہباز شریف کو برطانوی عدالتوں سے بھی کلین چیٹ مل چکی ہے اور پاکستان میں احتساب عدالت نے صاف پانی کیس میں شہباز شریف اور شریک ملزموں کو بری کردیا ہے ۔ مگر دوسری طرف حکومتی وزراء اس بات پر تالیاں بجا رہے ہیں کہ شہبازشریف پر منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہو رہی ہے اور 18 فروری کو گویا وہ گرفتار ہو جائیں گے۔ ویسے اس وقت عمران خان سمیت ہر وزیر کی یہ ہی خواہش ہے کہ تمام اپوزیشن کو جیلوں میں ڈال دیا جائے ۔ حالانکہ دعوی انکا یہ ہے کہ یہ نیوٹرل ایمپائروں کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں ۔ ۔ پھر پیپلزپارٹی والے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ آصف زرداری کا تیس برسوں سے احتساب ہو رہا ہے ثابت کچھ بھی نہیں ہوا نہ ہی کسی مقدمے میں انہیں سزا ہوئی ہے اب یہ ہے تو شرم ناک بات ان اداروں کے لیے جنہوں نے آصف زرداری کو بار بار گرفتار کیا بلند بانگ دعوے کئے، مگر سزا نہ دلوا سکے یہی حال شہباز شریف کا بھی ہے نیب کے تفتیش کار ان کی کرپشن کے ایسے قصے سناتے ہیں کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، لیکن ثابت کرنے کی باری آتی ہے تو نیب والے ہاتھ کھڑا کر دیتے ہیں۔56 کمپنیاں اور صاف پانی کیس کی مثال سامنے ہے کیسے کیسے انکشافات نہیں کئے گئے احد چیمہ جیسے دست راست کو بھی پکڑ لیا گیا تھا ٹی وی چینلوں کے ذریعے ثبوتوں کے انبار لگا دیئے جاتے تھے، مگر سب نے دیکھا کہ نیب نے خود ان کے کیسوں کو ختم کر دیا شہباز شریف کو کلین چٹ دے دی اس کے بعد کچھ عرصہ خاموشی رہی ۔ پھر ان کے ختم ہوتے ہی شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس سامنے آگیا ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس بار نیب تفتیش کو فرد جرم تک لے آیا ہے ورنہ وہ راستے میں ہانپنے لگتا ہے۔

۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف پر نیا حملہ صرف حکومت کو خوش کرنے کے لئے ہے جیسا کہ اب حکومتی وزراء شہباز شریف کے خلاف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ ہونے تک شہباز شریف کو اسمبلی میں خطاب بھی نہ کرنے دیا جائے تو پھر احتساب کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ صرف دکھاوے کا ہے اور سیاسی تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت پر تنقید کرنا اور حکومت کا قبلہ درست رکھنا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ موجودہ حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور عوام کو کچھ بھی اچھا ڈلیور نہ کرنے کے باوجود چار سال پورے کرنے کے قریب پہنچ رہی ہے۔ عمران خان آج صرف شہباز شریف ، بلاول اور مولانا فضل الرحمان سے ٹیلی فونک گفتگو ہی کرلیں تو میرے خیال سے انکا جانا ٹھہر جائے ۔ مگر جب انسان اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا شروع کر دیتا ۔ طاقت کا نشہ اس کا ذہنی توازن خراب کردیتا ہے ۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا ہے کہ عمران خان ایسا کرکے ایک اچھی مثال قائم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یاد رکھیں تنقید کرنا میڈیا اور اپوزیشن کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ تنقید اور پروپیگنڈے کا تعین حکمران نہیں ۔ مہنگائی اور دیگر مسائل میں پھنسے ہوئے غریب، مزدور، کسان اور عام عوام کرتے ہیں۔ جو بھی ان کے حقوق کی بات کرے گا، وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور حکمران اس تنقید کو پروپیگنڈے کا نام دے کر ملک کی اپوزیشن اور میڈیا کو دبانے کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال سے اپوزیشن کے خلاف تحریک انصاف کے چور، ڈاکو اور لٹیرے کے نعروں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا ۔ کیونکہ جو الزام سابق حکمرانوں پر لگایا جا رہا تھا، اس سے بڑے الزام موجودہ حکمرانوں پر لگ چکے ہیں۔ یوں اب الزامات کے جواب دینے کی باری عمران خان کی ہے

Leave a reply