ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
ناصر زیدی
3 جولائی 2020: یوم وفات
اردو کے ممتاز شاعر ، ادیب، مصنف اور کالم نگار سید ناصر زیدی 8 اپریل 1943ء کو مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تقسیم ہند کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے لاہور پاکستان میں آ کر آباد ہوئے ۔ لاہور میں تعلیم وتربیت پائی۔ بی اے لاہور سے کیا۔ لاہور ہی میں ان کا ذوق شعری روزہ ’’حمایت اسلام‘‘ سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ روزنامہ ’’امروز‘‘ میں سامع بصری، کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ پندرہ روزہ ’’آہنگ‘‘ کراچی میں لاہور کی ادبی ڈائری بھی لکھتے رہے۔
ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے علاوہ متعدد ادبی و نیم ادبی رسائل کے ایڈیٹر رہے۔ کئی وزرائے اعظم کے اسپیچ رائٹر رہے۔ چند برس سے لاہور میں مقیم تھے اور مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے تھے ۔ روزنامہ پاکستان میں باد شمال کے عنوان سے کالم لکھتے رہے، آپ ماہنامہ "ادب لطیف” کے مدیر بھی تھے.ادبِ لطیف کے علاوہ ماہانہ شائع ہونے والے شمع، بانو، آئینہ، بچوں کی دنیا، امنگ، رنگ و بیاں اور اخبار مصنفین جیسے ادبی اور سماجی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ ادب لطیف کے اس دور میں انہوں نے کئی سالنامے اور یادگار نمبر شائع کیے۔2019 میں غالب نمبر شائع ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی شاندار کردار کیا۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ “ڈوبتے چاند کا منظر ” پہلی بار 1976 میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے شروع میں اپنا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے خود کہا کہ “میں فطری طور پر حسن کا پرستار ہوں۔ حسن جہاں ہو، جس رنگ میں ہو، میرے دل و دماغ کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے”۔
1976 میں شائع ہونے والے اس شعری مجموعے نے بہت پذیرائی حاصل کی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں میں شعری اور ادبی ذوق موجود ہے اور ساتھ ہی شاعر کی مقبولیت بھی بڑی واضع دلیل تھی۔ یہ پہلا ایڈیشن ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا “ڈوبتے چاند کا منظر” کا دوسرا ایڈیشن 1977ء میں شائع ۔
آپ کی نگرانی میں ہی نومبر 2019ء میں پہلی مرتبہ ادب لطیف کا "اقبال نمبر” شائع ہوا تھا اور دوسرے اقبال نمبر پر کام جاری تھا. اس کے علاوہ آپ نے "بیاد شاعر مشرق” بھی مرتب کی تھی.3 جولائی 2020ء کو اسلام آباد میں ان کی وفات ہوئی۔
تصانیف
بیاد شاعر مشرق (سوانح علامہ اقبال)
کشمیر ہمارا ہے، کشمیر ہمارا ہے، (مرتب/ مضامین)
ڈوبتے چاند کا منظر (شاعری)
وصال (شاعری)
التفات(شاعری)
وہ رہبر ہمارا وہ قائد ہمارا(سوانح قائد اعظم)
ناصرؔ زیدی کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز اسی سے محبتیں تھیں بہت
وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب ہی نہ تھی
بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت
ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت
پہنچ گئے سر منزل تری تمنا میں
اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں بہت
وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت
ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
ہمارے بعد ہوا اس گلی میں سناٹا*
ہمارے دم سے ہی ناصرؔ حکایتیں تھیں بہت*
غزل
جو میری آخری خواہش کی ترجماں ٹھہری
وہ ایک غارت جاں ہی متاعِ جاں ٹھہری
یہ غم نہیں کہ مرا آشیاں رہا نہ رہا
خوشی یہ ہے کہ یہیں برق بے اماں ٹھہری
وہ تیری چشمِ فسوں ساز تھی کہ موجِ کرم
وہیں وہیں پہ میں ڈوبا جہاں جہاں ٹھہری
کبھی تھے اس میں مری زندگی کے ہنگامے
وہ اک گلی جو گزر گاہِ دشمناں ٹھہری
وہی تھی زیست کا حاصل وہی تھی لطفِ حیات
وہ ایک ساعتِ رنگیں جو بے کراں ٹھہری
میں اس کو بھول بھی جاؤں تو کس طرح ناصرؔ*
*جو شرط خاص مرے ان کے درمیاں ٹھہری
غزل
جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
حسینوں کو بہت نزدیک لا کر چھوڑ دیتا ہوں
میں اپنے دشمنوں سے بھی عداوت کر نہیں سکتا
خود اپنے قاتلوں کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
جنونِ شوق میں حائل نہ ہوں منطق کی دیواریں
خِرد کی راہ میں کانٹے بچھا کر چھوڑ دیتا ہوں
مجھے معلوم ہے رسم و رَہِ الفت کی دشواری
پری چہروں سے میں پینگیں بڑھا کر چھوڑ دیتا ہوں
کسی زلفِ رسا کے پیچ و خم پر جاں فدا میری
کسی جُوڑے میں پھولوں کو سجا کر چھوڑ دیتا ہوں
کوئی شعروں کی فرمائش کرے مجھ سے اگر ناصرؔ*
میں اس کو صرف حالِ دل سنا کر چھوڑ دیتا ہوں*