پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بابر اعظم کا کیرئیر آج کل شدید تنقید کی زد میں ہے، اور حالیہ پی سی بی اجلاس کے فیصلے نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے کہ آیا بابر اعظم واقعی قومی ٹیم کے معیار پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ بابر اعظم اب خود ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔دس سالہ طویل کرکٹ کیریئر میں بابر اعظم کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو حقائق حیران کن ہیں۔ اتنے لمبے عرصے میں بابر کا ایک ففٹی نہ بنانا ان کی کرکٹ اہلیت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جس سے قوم کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، اس کی مسلسل ناکامیوں نے شائقین کو مایوس کر دیا ہے۔ پی سی بی کے حالیہ اجلاس میں بابر کو ملتان ٹیسٹ سے باہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن اس کو ’ریسٹ‘ کا نام دے کر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بابر اعظم کی ناقص کارکردگی نے انہیں ٹیم سے باہر کروا دیا ہے۔
پی سی بی اجلاس کے دوران باخبر ذرائع کے مطابق جیسن جلسیپی اور شان مسعود جیسے کرکٹ کے ماہرین بابر کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، لیکن عاقب جاوید کی مخالفت نے پی سی بی کو مجبور کیا کہ وہ بابر کے حق میں فیصلہ نہ دے۔اور پھر بابر اعظم کو ملتان ٹیسٹ سے باہر کر دیا گیا۔ پی سی بی اجلاس کے دوران ملتان ٹیسٹ دے بابر اعظم کو نکال کر دراصل بابر اعظم کو ان کی حدود یاد دلائی گئی ہیں۔ بابر اعظم کی حالیہ کارکردگی، مسلسل ناکامیوں اور انفرادی سطح پر بہتر کارکردگی نہ دکھانے سے ٹیم کی مجموعی پرفارمنس بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بابر کی کپتانی کے دوران، ٹیم کو کئی مواقع پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کی اپنی بیٹنگ میں وہ تسلسل نظر نہیں آتا جو ایک کپتان میں ہونا چاہیے۔پاکستان کرکٹ کو اب ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو صرف نام کے نہیں، بلکہ عملی طور پر کارکردگی دکھا کر ٹیم کو اوپر لے جائیں۔ بابر اعظم کے پاس مواقع تھے، مگر ان کی مسلسل ناکامیوں نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انہیں ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔ اگر وہ اب بھی اپنی کارکردگی بہتر نہیں کرتے، تو شاید مستقبل میں ان کی واپسی کا کوئی امکان بھی نہ ہو۔
دوسری جانب پی سی بی اجلاس کے دوران عثمان کا فارغ کر دیا گیا اور اب امید کی جا رہی ہے کہ عثمان کی جگہ مدثر نذر کو لائے جانے کا امکان ہے۔ مدثر نذر اور عاقب جاوید جیسے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کے پی سی بی میں ہونے سے پاکستان کرکٹ میں بہتری آئے گی اور کھلاڑیوں کا کھیل بھی بہتر ہو گا ۔