بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے ریڈیو پر یہ کام کیا جائے۔ سینیٹر فیصل جاوید

0
45

ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت ریڈیو پاکستان ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ریڈیو پاکستان کے کام کے طریقہ کار، پروگرامز، اسٹراکچر، بجٹ، ادارے کو درپیش مسائل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ریڈیو پاکستان ملک بھر میں سنا جاتا ہے۔قائمہ کمیٹی نے پہلے بھی اس ادارے کا دورہ کر کے کارکردگی اور مسائل کا جائزہ بھی لیا تھا اور کچھ سفارشات بھی دی تھیں آج ان کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ ڈی جی ریڈیو پاکستان امبرین جان نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پی بی سی کا ایک بورڈ ہے جس کے چیئرمین سیکرٹری وزارت اطلاعات ونشریات ہیں اور بورڈ میں چاروں صوبوں کے ممبران سمیت کل دس ممبران ہیں۔ صوبہ پنجاب سے ابھی ممبر نہیں ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی بی سی کے 32 براڈ کاسٹنگ ہاؤسز ہیں۔پہلا ہاؤس پشاور میں 1935 میں قائمہ کیا گیا تھا اور آخری براڈ کاسٹنگ ہاؤس 2009 میں سیالکوٹ میں قائم کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ژوب اور بٹِشاہ کے ہاوسز بند ہیں باقی کام کر رہے ہیں۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ صوبہ سندھ کے علاقہ حیدرآباد میں لوگ ریڈیو نشریات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور یہاں کے پروگرام ہمسائیہ ممالک میں بھی پسند کیے جاتے تھے مگر بد قسمتی کی بات ہے اس اسٹیشن کی حالت زار انتہائی خراب ہے۔ موسیقی سمیت بے شمار پروگرام بند کیے گئے ہیں۔ قائمہ کمیٹی حیدرآباد اسٹیشن میں میٹنگ کر کے مسائل کا جائزہ لے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ لوگ پی ٹی وی کی خبروں پر اعتماد کرتے ہیں مگر اتنے بڑے ادارے میں کوئی شکایت سیل نہیں ہے جس کے ذریعے لوگ اپنی شکایات اور مسائل پیش کر سکیں بہتر یہی ہے کہ ہر براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں تین ملازمین پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو مسائل کا ازالہ کر سکے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرونا وبا سے پہلے حراسگی کی دو شکایات تھیں جن کو حل کر لیا گیا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی بی سی کے ایف ایم 56 چینل ہیں اور اے ایم 24 چینل ہیں اور 22 زبانوں میں 1121 ڈیلی براڈ کاسٹ فی گھنٹہ جاری کی جاتی ہے۔مختلف زبانوں میں بھی براڈ کاسٹ کی جاتی ہیں اور دو ملین منٹس ریکارڈ موجود ہے جس میں سے 0.78 ملین ڈیجیٹائیزڈ بھی کر لیا گیا ہے۔کمیٹی کو یہ بھی آگاہ کیا گیا کہ 1948 سے ارد زبان میں آہنگ میگزین بھی ماہانہ جاری کیا جاتا ہے۔کمیٹی کو فلیگ شپ پروگرام کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرونا وبا کے دوران ڈاکٹر ثانیہ نشتر روزانہ ایک گھنٹہ لوگوں کی شکایات جاننے کیلئے لائیو کال بھی لیتی رہی ہیں اور لوگوں کے مسائل بھی حل کیے گئے ہیں اور کرونا وبا کے دوران مختلف این جی اوز نے مقامی زبان کے ترجمے کر ا کر پروگرام چلائے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ بچوں سے زیادتی کے حوالے سے مقامی زبانوں میں پیغامات چلائے جائیں تاکہ اس طرح کے واقعات کو کنڑول کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا شعور آگاہی کے حوالے سے پی بی سی ایک فہرست بنا کر لائحہ عمل اور میکنزم تیار کر ے۔سینیٹر سید محمد صابر شاہ نے کہا کہ قومی ایشوز کی ترجیحات بنا کر لوگوں کو شعور دیں۔سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہاکہ ملک میں جرائم اور بچوں سے زیادتی کی سزائیں لوگوں کو بتائی جائیں تاکہ لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے ان جرائم سے دور رہ سکیں اور اسلامی تعلیمات بھی عام کی جائیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ریڈیو کے ذریعے موسمی آفات، بارشیں، سیلاب اور طوفان وغیرہ کی آگاہی کیلئے ایک سسٹم بنایا جائے اور این ڈی ایم اور محکمہ موسمیات کے ساتھ لائحہ عمل اختیار کر کے ابتدائی وارننگ جاری کی جائیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کی کارکردگی اور ویوورشپ میں اضافے کیلئے تلفظ کی ادائیگی اور تحریر کو بہتر کرے۔ ڈراموں اور دیگر پروگراموں میں نوجوانوں کو شامل کرایا جائے۔اس کیلئے ادارہ مختلف شہروں میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کر کے۔ انہوں نے کہا کہ خالد حمید بی بی سی اور وائس آف امریکہ میں کام کرتے رہے ہیں اور ریڈیو پر افسانہ پڑتے ہیں جنہیں لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ریڈیو پاکستان بھی اس طرح کے لوگوں کی خدمات حاصل کرے۔انہوں نے کہا وزارت اطلاعات ونشریات اور ان کے ماتحت اداروں کی طرف سے شائع کی جانے والی رپورٹس اور میگزین قائمہ کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 117 نیوز بلٹن اردو، انگلش اور غیر ملکی زبانوں میں چلائے جاتے ہیں۔فیس بک پر 2.6 ملین، ٹیوٹر پر 6 لاکھ، انسٹا گرام پر19 ہزار اور یو ٹیوب کے8 ہزار فالور ز ہیں۔6 ہزار کے قریب لوگوں کو ویب رسائی بھی حاصل ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ریڈیو پاکستان کی موبائل ایپلیکیشن بھی ہے جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ریڈیو پاکستان ملتان کی جون2020 میں اپ گریڈیشن ساؤتھ کوریا کی ٹیکنکل مددسے مکمل کر لی گئی ہے۔مظفرآباد میں 100 کلو واٹ میڈیم ویو ٹرانسمیٹر، میر پور میں 100 کلو واٹ اور گوادر بلوچستان میں بھی 100 واٹ میڈیم ویو ٹرانسمیٹر پر کام ہو رہا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جنوری 2020 میں پی بی سی بورڈ نے ڈیجیٹل پالیسی اور ڈی آر ایم کی منظوری دے دی ہے جس پر تین مراحل میں کام کیا جائے گا۔جس کا پی سی ون 10.6 ارب کا ہے۔ڈی آر ایم کوریج ہزار کلو واٹ میڈیم ویو ٹرانسمیٹر کے ذریعے ہوگی جس کے ذریعے انڈیا، نیپال، افغانستان، ایران، یو اے ای، اومان، قطر و دیگر ممالک میں لوگ مستفید ہو سکیں گے۔چیئرمین کمیٹی نے خبروں کے دوران اونچی آواز میں بیک گراؤنڈ میوزک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ شور ہوتا ہے لوگ اس سے تنگ ہوتے ہیں اسے بہتر کیاجائے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال2020 کا بجٹ 7133 ملین روپے طلب کیا گیا تھا مگر گرانٹ4373 ملین روپے کی دی گئی۔ ادارے کی انکم 285 ملین روپے اور اخراجات 5601 ملین روپے ہے،خسارہ 942 ملین روپے کا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے 2019-20 کے واجبات بھی899 ملین روپے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ بجٹ کا 83 فیصد تنخواہوں اور پنشن میں چلا جاتا ہے۔ پروڈکشن پر6 فیصد اپریشن پر8 اور انتظامی امور پر 3 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے کل منظور شدہ اسامیوں کی تعداد3264 ہے جن میں 2357 اسامیوں پر افراد کام کر رہے ہیں اور907 اسامیاں خالی ہیں اور ادارے کے 4041 پنشنرز بھی ہیں۔ بجٹ کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پوری پنشن ادا نہیں کی جارہی۔جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پوری پنشن ادا کی جائے ادارہ مارکیٹنگ پر توجہ دے کر بہتر انکم حاصل کر سکتا ہے اور موجودہ سٹاف میں سے ہی سیلز اور مارکیٹنگ میں معیاری لوگ تعینات کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2357 ملازمین میں سے 1132 لوگ انتظامی امور، پروگرام کے 286، نیوز کے 79، انجینئرنگ590، سیلز کے 10 اور سیکورٹی کی 7 اسامیوں کی منظوری ہے جبکہ107 لوگ سیکورٹی پر مامور ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارے نے ڈیجیٹل پر بہت ا چھا کام کیا ہے جس سے آنے والے وقت میں نمایاں بہتری ہوگی اور بہتر حکمت عملی کے ذریعے ادارے اپنے پاؤس پر کھڑا ہو سکتا ہے مارکیٹنگ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ریڈیو نے سماج کے بدلتے ہوئے رجحانات اور معاشرتی تقاضوں سے مزین کیا۔آج ریڈیو کی جدید شکل ہمارے لیے تفریح و معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز سجاد حسین طوری، سید محمد صابر شاہ، مولا بخش چانڈیو، روبینہ خالد، انجینئر رخسانہ زبیری کے علاوہ سیکرٹری اطلاعات ونشریات اکرم درانی، ڈی جی پی بی سی امبرین جان اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی

Leave a reply