بچوں کی شادیاں والدین کی پسند سے ہوں یا بچوں کی پسند سے؟؟؟ تحریر محمد عبداللہ

0
147

شادی فقط معاہدہ یا وقتی تعلق نہیں ہوتا کہ بنا سوچے سمجھے اور اس کے جملہ مضمرات پر غور وفکر کیے بغیر فیصلہ کردیا جائے لیکن یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اتنے بڑے فیصلے کرتے ہوئے بچوں کی پسند و ناپسند کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، ذات برادریوں، رشتہ داری کو قائم رکھنے، زمین و جائداد اور مال و دولت کے لالچ کے لیے بچوں کے رشتے کر دیے جاتے ہیں. اس میں زیادہ ایشو بیٹیوں کے ساتھ بنتا ہے کہ وہ بےچاری والدین کو فیصلے کو چیلنج کرنا تو درکنار اس پر بات بھی کریں تو بےحیا اور نافرمان کے لقب مل جاتے. لاڈ پیار سے پالی بیٹیوں کو جب بچپن اور لڑکپن میں کھلی آزادی دی جاتی ہے لیکن جب بات آتی ہے اس کی ساری زندگی گزارنے کی تو وہی جاہلیت والی سوچ اپنائی جاتی اور فیصلہ ٹھونسا جاتا جس کو بیٹیاں اپنی باپ کی چادر اور پگڑی کو داغ سے بچانے کے لیے چاروناچار قبول تو کرلیتی ہیں مگر اندر ہی اندر ختم ہوتی رہتی ہیں اور جو تھوڑی خود سر ہوں اور والدین کے لاڈ و پیار اور دی گئی آزادی کو برتنا جانتی ہوں وہ پھر چور دروازوں کو ڈھونڈتی ہیں اور وہ دروازے پھر گناہوں کی وادیوں میں کھلتے ہیں. بعینہ لڑکوں کے ساتھ بھی یہ ایشو ہوتا کہ والدین ذات برادری، جائداد اور رشتہ داری کے چکر میں ان کا رشتہ کردیتے ہیں جس پر لڑکے راضی نہیں ہوتے اگر وہ اس رشتے سے انکار کریں تو ان کو جائداد سے عاق کیے جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس پر وہ بھی چاروناچار والدین کا فیصلہ مان تو لیتے مگر گھر سے زیادہ توجہ باہر رہتی ہے جوکہ گھروں اور معاشروں میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے اور پھر جس پھوپھی اور ماسی کے ساتھ تعلق کو برقرار رکھنے کے رشتہ کیا گیا تھا اسی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور پھر ہمارے ہاں ایک نہیں دو دو تین تین گھر اجڑتے ہیں کہ وٹہ سٹہ کا سسٹم جو رائج ہوتا ہے.

یہ صرف ہماری ذاتی ضدیں اور رسم و رواج ہیں جن کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اسلام مرد و عورت دونوں کو اپنی پسند اور ناپسند کا حق دیتا ہے مرد کو تو اس حد تک آزادی دی کہ اس کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت کی بھی شرط نہیں ہے جبکہ عورت پر نکاح کے لیے ولی کی اجازت کی شرط تو ہے لیکن ولی کو بیٹی یا بہن پر زبردستی کی اجازت ہرگز نہیں ہے اس پر عورت کو حق دیا جاتا ہے اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق جیون ساتھی کو چننے کا اس پر ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ اس اسٹیج پر آکر نوجوان باغی ہوکر یا تو خفیہ گناہ کے راستے ڈھونڈتے ہیں یا پھر کورٹ میرج کی صورت نکاح کو ترجیح دیتے جس کو ہمارے علماء حضرات متنازع قرار دیتے ہیں.
بہرحال یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے اور بڑا حساس موضوع اور ایشو ہے جو گھروں، خاندانوں اور معاشروں میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اس میں زیادہ کردار ہمارے علماء اور والدین کا بنتا ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں سب سے پہلے بچوں کی تربیت اس نہج کی ہونی چاہیے کہ حلال اور حرام کی تمیز اور ان کو اختیار یا رجیکٹ کرنا آتا ہو پھر بچوں کی مستقبل کی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے ان کی رائے ضرور لیں کیوں زندگی انہوں نے گزارنی ہے …

Muhammad Abdullah

Muhammad Abdullah

Leave a reply